اور کیا عہدے وفا ہوتے ہیں

تحریر : برکت مری پنجگور
پارٹیاں سمندر کی مانند ہیں جس میں ہزاروں مچھلیوں کی طرح ورکر کارکنان ووٹران ہوتے ہیں جو مختلف اوقات میں کسی کو کم کسی کو زیادہ لفٹ لافٹ ملنے کی وجہ سے آپس میں لڑتے جھگڑتے اختلافات رکھتے رہتے ہیں یہ لڑائی جھگڑے اپوزیشن میں نہیں بلکہ پارٹیاں اقتدار میں آتے ہی یہ سلسلہ ہوجاتے ہیں کیونکہ جو سیاست غریبوں کی حقوق انکی خدمت پسے ہوئے طبقے محکوم قوموں کی آواز ہوا کرتی تھی جنہیں ایک عظیم عبادت کا درجہ حاصل تھی لیکن اب سیاست تجارت مراعات کے گرد گھومنے والی کاروبار بن چکی ہے وال پروٹیکشن بور سولر روڑ بلڈنگ ٹھیکے پر ٹھیکیداری انہی کے حصول کیلئے نہ صرف ورکر بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اندر لیڈران بھی آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں سیاسی قائدین کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے نہ قومی ایشو نہ علاقائی مسائل حل ہوتے ہیں انہی کے لڑنے جھگڑنے اقتدار کے حصول کی لالچ کی وجہ سے آپس میں علاقائی بھائی چارگی شادی بیاہ جنازے فاتحہ خوانی عام دیوان مجالس تک تقسیم ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ آپس کے خونی رشتے بھی سیاسی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں انہی سیاسی مفادات آپس کی اختلافات سے گھروں کے سامنے صحن تک دیوار بن جاتے ہیں ایک چاردیوری میں چار پارٹیوں کی جھنڈے لگنے شروع ہوجاتے ہیں ایک بھائی دوسرے بھائی کے چہرے کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں لیکن انہیں اپنے سیاسی جماعتوں سے کیا مل جاتا ہے ان غریب ورکروں کی اوقات سیاسی پارٹیوں میں صرف ایک بور ایک سولر ایک ادنی ملازمت پھر زندگی بھر طنز کے نشتر کا سامنا ایک چھوٹے سے مفادات کی خاطر گھر میں دیوار کھڑا کرنے اپنوں سے جدائی کا سودا دنیا کا کوئی زی شعور نہیں کرسکتا ہے لیکن ہم اسی فرسودہ سیاست کی خاطر کسی کی پرواہ نہیں کرتے ہوئے اپنے جان سے پیارے رشتوں کو قربان کرتے ہیں وہی سیاسی لیڈر اپنی مفادات کی خاطر ان سے سمجھوتہ کرتے ہیں جن سے ہم ایک دوسرے سے آج بھی انہی کی وجہ سے ناراض ہیں وہ آپس میں گل مل جاتے ہیں کیا فائدہ اس منزل کی جس کے حصول کیلئے پروانے اپنے پر جلا کر بھی روشنی حاصل نہ کرے ایسا گران سودا پاگل ہی کرسکتا ہے ایک سیاسی کارکن ورکر نہیں جو ہم کررہے ہیں ہر کوئی ایک دوسرے کو دکھ دے کر اپنے پارٹیوں میں بے وجہ جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسی کشمکش میں نئے نئے سیاسی روایات ایک نامکمل مقام بنانے کی خاطر دوسرے ورکر اپنے دوست رشتہ دار کے خلاف پروپیگنڈا لے کر صرف لیڈر کو خوش کرنے کیلئے چغلی کرتے ہیں کہ مجھے لفٹ لافٹ زیادہ ملے یہی سیاسی روایات دن بدن ذہنیت بنتی جارہی ہے اپنے نمبر بڑھانے کیلئے چغلی کی پہاڑ کھڑے کرتے ہیں، لیڈر بجائے سیاسی ماحول کو تقویت دیں اس روایات شکایت کرنے کیلئے انہیں روکے انکی حوصلہ شکنی کے طرز طریقے تخلیق کرے حقائق کو سمجھے لیکن ایسا ہر گز نظر نہیں آتا ہے حقیقتاً یہی ہورہاہے کہ وہ دوسرے طرف نہ سنے نہ جانے بغیر انہیں نظر انداز کرنا شروع کر دیا جاتا ہے جس نے پارٹی کو توانا بخشا ہے جس نے چاک چون جھنڈے زندہ باد مردہ کے نعرے لگائے وہ کسی کی معمولی پروپیگنڈے کی وجہ سے کئی سال کی رفاقت سے فارغ ہوجاتی ہے وہ اپنی گراں قدر سیاسی وابستگی سے مایوس جدائی کو بہتر سمجھنے لگتا ہے نہ صرف یکطرفہ فیصلہ ایک سیاسی ورکر کیلئے نقصان دہ ثابت ہو جاتا ہے بلکہ پارٹی کے اندر یہ روایات عروج پاکر پارٹی کو دیرے دیرے دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے سیاست میں ایک محنتی نظریاتی کارکن ہی پارٹی کی بقاءجمہوریت کی حسن ہے ان کی وابستگی محنت کوشش مخلصی سے انکے کئی لوگ رشتہ دار پارٹی سے وابستہ ہوتے ہیں ایک محنتی کارکن کے چلے جانے سے کئی اور بھی ساتھ ساتھ چلے جاتے ہیں جس کے زمہ دار نہ صرف چغلی کرنے والا ہوگا بلکہ قیادت بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔ دنیا میں فیصلوں کی ایک اصول ہوتی ہے کہ دونوں فریقوں کو سنا جاتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا ہے کہ فیصلے ایک فریق کو سننے سے صادر ہوا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے، پارٹی ہو یا معاشرے کا کوئی بھی باکردار لیڈر ان کو چاہیے کہ وہ اپنے سمندر جیسے پارٹی یا تنظیم واتحاد کے اندر اختلاف یا گرو بندی کے خاتمے کیلئے شکایت یا گروہ بندی جیسے ناسور کی حوصلہ شکنی کرے وہ کارکن ورکر جو اپنی جگہ بنانے کیلئے دورغ گوہی کا سہارا لے کر دوسروں کی چغلی کرتے ہیں، یا جو واقعی پلانی ایسا کام کررہے ہیں، جس سے پارٹی کو نقصان ہورہا ہے اسکی بھی سنے کیا شکوے گِلے ہیں ایک عام ماحول میں والد کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ناراض بیٹے کو گھر سے نہ نکال دے انکی بھی سنے انہیں نہ سننے گھر سے نکال دینے سے گھر کا ماحول تتر بتر ہوگئی بیٹے کی شکوے گِلے سننے کے بعد دسترخوان پر انہیں بغیر کسی نقصان کے لایا جاسکتا ہے اسی طرح ہر ماحول کو ساز گار بنانے کیلئے برابری کی ضرورت ہے جیسے سوشلسٹ جمہوریت کا بھی نام دیا گیا ہے یہی جمہوریت ہے جو پارٹی کی بقاءہے لیکن موجود دور میں سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کے روپ میں سامراجیت نظام چل رہی ہے ناراضگی ایک گھر میں بھی ہوتی ہیں انہیں دور کرنے کیلئے آپس میں بیٹھ کر دور کیا جاسکتا ہے نہ کہ نظر انداز دوری اختیار جیسے فارمولے استعمال کرنے سے نقصان اٹھانا پڑے کیونکہ نفرتیں دور رہنے سے دن بدن بڑھ جاتی ہیں نزدیکیاں ہی محبت ہم آہنگی پیار بڑھانے کی سیڑھی ہے سخت اور یکطرفہ فیصلوں سے کئی واقعات میں کئی قیمتی دوست محنتی نظریاتی کارکن دوسروں کے پروپیگنڈوں سے پارٹی سے جدا ہوئے ہیں جس کی خلا آج بھی خالی رہے ہیں جس نے شکایتوں کے انبار لگائے تھے وہ بھی اپنے چند مراعات حاصل کرکے دوسری مراعات کے حصول میں کہیں اور ادھر ادھر ہوکر اپنے رفاقت توڑ کر چلے جاتے ہیں لیکن نقصان کس کو ہوا اسکو ہوا جس نے یکطرفہ فیصلہ کیا ہے کسی کو نہیں سنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں