کورونا جیت گیا،ہم ہار گئے

ڈاکٹر مقبول لانگو: اسسٹنٹ پروفیسر فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال کوئٹہ
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی دور میں کسی بھی حکومت نے ایک مربوط،مضبوط صحت پالیسی تشکیل ہی نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا کے ابتداہی دور میں ہی صحت کا نظام ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ کورونا کا جو رونا ہے وہ ایک تلخ حقیقت بن چکاہے۔ ہم اس نہج پر پہچ چکے ہیں، جہاں انسانیت بھی منہ چھپاتی پھرتی نظر آئیگی۔ جس دلیری سے کورونا ہمیں روند رہا ہے اس کی زمہ داری ہم سب پر عاہد ہوتی ہے۔ حکومت نے جن شرائط پر دکانیں، مارکیٹیں، اور شاپنگ مالز کھولنے کی اجازت دی تھی ان ایس۔او۔پیزکو سراسر نظر انداز کیاگیا، جو کہ باعث تشویش ہے۔ تاجر برادری اور عوام نے ابھی تک کورونا کو سنجیدہ لیا ہی نہی ہے۔ جس کی وجہ سے اموات کی شرح اچانک تیزی سے تشویش ناک حد تک بڑ ھ گئی ہے۔ ہمارے ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ شیخ زید ہسپتال اور فاطمہ جناح چیسٹ ہسپتال میں مزید داخلہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لوگ اپنے پیاروں کو کراچی کے ہسپتالوں میں لے جانے پر مجبور ہیں۔ وہاں بھی آغا خان اور ضیاء الدین جیسے بڑے ہسپتالوں میں بھی مریضوں کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ حالات کتنے گھمبیر ہیں اور ہم کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ آپ عید کی شاپنگ سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ یہ جو عید کی شاپنگ کے مناظر دیکھنے کو مل رہے تھے اس سے حکومت اور طبی عملہ پر کیا گزری ہو گی۔ وہ خون کے آنسو روتے ہونگے کہ ہم اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر وطن عزیز کے لوگوں کی خدمت جاری رکھیں ہوئے ہیں۔اس صورتحال میں آپ سامان نہیں موت خرید رہے ہیں۔
پتہ نہیں کیا کمی ہے ہمارے لوگوں میں کہ مختلف پروگراموں کے ذریعے روزانہ کے معمول پر کورونا سے پیدا ہونی والی پیچیدگیوں کے بارے میں آگاہی دی جا تی ہے ایسا فورم نہیں چاہے سرکاری ہو یا پرائیویٹ کرونا کے خلااف جنگ میں صف اول پہ نظر نہ آتے ہوں۔
کچھ لوگ یہاں تک کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر باہر گئے تو کورونا اور گھر میں رہے تو بھوک،کریں تو کیا کریں۔ عالم یہ ہے کہ طبی عملہ اور محکمہ صحت بے بس نظر آتے ہیں۔ ہسپتالوں میں کورونا کے مریض ایک کرب میں مبتلا ہیں۔ جو علاج اپنایاجا رہا ہے وہ بہت مہنگاہے اور غریب کی بس سے باہر ہے۔
ہمارے فرنٹ لائن ہیروز کا حال بھی کچھ برا نہیں سینکڑوں ڈاکٹرز اس مرض کا شکار ہوئے اور کہی ڈاکٹرز اس مرض کا مقابلہ کرتے ہوے شہید ہو گئیہیں، جس میں ہمارے ایک سینئر چیسٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر سید نعیم آغا صاحب کی مثال سرفہرست ہے۔ حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر کورونا سے ایسے لڑ رہے ہیں جیسے فوجی بغیر ہتھیار کے میدان جنگ میں لڑ رہے ہوں۔
تاحال کوہی مستند دوائی یا ویکسین کورونا کے لیے نہیں بنی۔ احتیاط ہی واحد حل ہے، خاص طور پر اپنے بزرگ اور بیمار حضرات کا خیال رکھیں کیوں نکہ انہی حضرات میں اموات کا تناسب زیادہ پایا گیا ہے۔ لوگوں کا یہ خیال بلکل غلط ہیکہ صرف بوڑھے لوگ اس مرض سے متاثر ہو رہے ہیں، جوانوں کی بھی کافی تعداد اس مرض سے صرف متا ثر ہی نہیں بلکہ تشویشناک حالت میں ہسپتالوں میں داخلہے۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ ان لوگوں کی مدد کرے جن کو گھروں میں قرنطینہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض مریضوں کو آکسیجن، مہنگے اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت ان کو مہیا کرے تاکہ مریض جلد صحتیاب ہوں۔ کورونا کے مریض پچاس ہزار سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اور اموات کی تعداد ہزار سیتجاوزکر گئی ہے پھر بھی افسوس ہمارے عوام غیر سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اگرہمارا رویہ یہی رہا تو کورونا کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں چلی جائیگی اور اموات کی شرح بھی اسی تناسب سے بڑھے گی
ابھی بھی ہم اپنے پیاروں کو بچاسکتے ہیں اگر ہم صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔ زندگی رہی تو ایسی خوشیاں اللہ ہمیں بار بار عطا فرمائے گا۔ رب کائنات صحت و سلامتی کے ساتھ ہم سب کو نیکی کے راستے پر استقامت فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں