عطا شاد شخصی خاکہ

تحریر: ڈاکٹر زاہد دشتی
جہاں کام ، کارنامے اور تعارف کا وقت آئے تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی تعارف نہیں ہوتا ، بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے تعارف کے لئے الفاظ کم پڑجاتے ہیں۔اور بعض لوگ اپنیہنر سے اپنا تعارف خود ہی کرا لیتے ہیں۔ شاید عطاشاد نے اسی لمحے کے لئے کہا تھا۔
کسی کی چال نے نشے کا رس کشید کیا
کس کا جسم تراشا گیا شرابوں سے
یوںتو عطا شاد اردو اور بلوچی زبان کے شاعر ہیں۔ ساتھ ساتھ انہوں نے ہر دونوں زبانوں میں ڈرامے بھی تخلیق کئے وہ ان زبانوں کے بولنے والوں کے لئے اجنبی نہیں۔ مگر پھر بھی معتبر حوالے ضروری ہوتے ہیں۔توعطاشناسی کے حوالے سے کچھ تحریر کرنے سے پہلے ان کے حوالے بنیادی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔
اصل نام : محمد اسحاق
اسکول میں نام: عطا محمد
قلمی نام: عطاشاد
والد محترم: لعل خان
قوم: بلوچ
ولادت: نومبر 1939 سنگانی سر ، کیچ ،مکران ، بلوچستان
ابتدائی تعلیم: گورنمنٹ ہائی سکول تربت
میٹرک: گورنمنٹ ہائی سکول پنجگور 1956
ایف اے: گورنمنٹ کالج کوئٹہ۔ 1959-60
بی اے: گورنمنٹ کالج کوئٹہ 1962ئ ( ملحقہ پنجاب یونیورسٹی)
شاعری کی ابتدا: 1955
تصنیفات و شاعری: سنگاب ، برفاگ(اردو مجموعے)
تالیفات: اب جب نیند ورق اْلٹے گی(کلیات)
روچ گر شپ ، سحار، اندیم ( بلوچی مجموعے)
بلوچی لوک ثقافت: بلوچی نامہ
لغات : اردو بلوچی لغت ، ہفت زبانی لغت( حصہ بلوچی)
تراجم: درین ( بلوچی عوامی گیت ) گچین ( جدید بلوچی شعرائ )
اعزازات: صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی1983ئ
ستارہ امتیاز ( بدست صدر مملکت) 1992
خصوصی ایوارڈ، وزارت اطلاعات و نشریات
حکومت پاکستان1984
ریڈیو ایوارڈ
منسوب عطاشاد: عطاشاد آڈیٹوریم ادارہ ثقافت بلوچستان کوئٹہ
عطاشاد روڈ( انسکمب روڈ ) کوئٹہ
عطاشاد روڈ( مین بازار ) تربت
رکنیت اعزازی: ادارہ ثقافت پاکستان ، پاکستان نیشنل بک کونسل
مرکزی اردو بورڈ ، مقتدرہ قومی زبان ، بلوچی اکیڈمی
ملازمت: پروڈیوسر ،ڈرامہ نگار ریڈیو پاکستان1962ئ تا1969
انفارمیشن آفیسر ، محکمہ اطلاعات و نشریات پاکستان، 1969ئ تا 1972ئ
ڈائریکٹر تعلقات عامہ ، حکومت بلوچستان،9جون1972ئ تا 29 اپریل 1973
ڈائریکٹر و ایگزیکٹو ڈائریکٹر آرٹس کونسل (ادارہ ثقافت بلوچستان ) 1973ئ تا 1983
ڈائریکٹر تعلقات عامہ ، حکومت بلوچستان 9جون1983ئ تا10 دسمبر 1986
سیکرٹری اطلاعات و نشریات ، کھیل و ثقافت 1989تا 1990
ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ ، حکومت بلوچستان 16اگست1990ئ تا 1993
سیکرٹری اطلاعات و نشریات حکومت بلوچستان 1993
ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ ( آرکائیوز)1993ئ تا 1995
سیکرٹری اطلاعات و نشریات حکومت بلوچستان 1995ئ تا اکتوبر1996
ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ بلوچستان 1996ئ تا(وفات )13فروری1997
کل مدت سرکاری ملازمت: 34سال 11ماہ
سفر بیرون ممالک ا:یران 1972،سعودیعرب1977 امریکہ1983آسٹریلیا1985
سعودی عرب1987 حج و عمرہ کی سعادت
جرمنی 1989، تھائی لینڈ1989 اٹلی دو بار گئے۔
ایک مرتبہ 1993 چین دوسری مرتبہ1994
برطانیہ، ڈنمارک ، ترکی ، متحدہ عرب امارات، عمان ، سنگاپوروغیرہ
اولاد: مہنا شاد ( بیٹی)رشاشاد( بیٹی) حمل شاد( بیٹا)
وفات: 13فروری 1997ئ جمعرات سوا نو بجے شب کوئٹہ
تدفین: 14فروری1997ئ ( بروز جمعتہ المبارک ) کوئٹہ(1)
ہم سے بہت سے ایسے بھی ہے جو کہ 13 فروری کو اخبارات یا ٹی وی کے مباحثوں میں یہ جان لیتے ہیں کہ آج عطاشاد کی برسی ہے۔مگر اس کے علاوہ عطا شناسی کے حوالے سے بہت سی کْتب بازار میں دستیاب ہیں جن کو سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔اس تعارف کے علاوہ دیگر تفصیلی مباحث کے لئے ان کتب سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ عطاشناسی کے حوالے سے نوجوان اسکالر اورمحققین عطاشاد کی زندگی شاعری اور دیگر کام کو سمجھنے اور جاننے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے لئے اْن کے تحریر کردہ اردو ڈراموں کو نامور فنکار اور ڈرامہ نویس اور ریڈیو پاکستان کوئٹہ کے سابق کنٹرولر پروگرام حلیم مینگل نے مرتب کرکے ’’آواز کے سائے‘‘جو کہ اْن کے ایک ڈرامے کا عنوان ہے کے نام سے رائٹرز گلڈبلوچستان کی جانب سے شائع کیا۔جو کہ موجودہ صورت حال میں انتہائی تازہ کام اور کوشش ہے۔ اس کتاب میں’’ درد کے سْر ‘‘،’’آواز کے سائے ‘‘ ’’ صدف صدف سمندر ‘‘ ’’ میرا سایہ ‘‘، ’’ خمار ہستی ‘‘ ’’ گداز ایک پتھر ‘‘ کے عنوانات کے تحت ریڈیائی ڈرامے کتابی صورت میں بازار میں دستیاب ہیں۔ا س کتاب میںمحترمہ فرح جاوید طفیل، (چیئرمین پاکستان رائٹرز گلڈ)عابد رضوی (سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کوئٹہ ) قیوم بیدار(سابق کنٹرولر پاکستان ٹیلی ویڑن نیوز اسلام آباد ، سابق پروگرام منیجر پی ٹی وی بولان کوئٹہ )، افضل مراد(سابق ریذیڈنٹ ڈائریکٹر اکادمی ادبیات بلوچستان)، اے ڈی بلوچ (ڈرامہ نویس )اور کتاب کے مرتب حلیم مینگل کے تبصرہ بھی شامل کئے گئے ہیں۔
ہم عطاشاد کی شاعری کے ساتھ ساتھ یہاں مختصراً ان ڈراموں کا خاکہ پیش کریں گے۔
’’ درد کے سْر ‘‘
اس ڈرامے میں چار کردار ہیں ( جاوید ، سیمی، عاصم اور منیجر )ڈرامہ مختلف مراحل سے گزر کر عاصم کے خودکلامی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
عاصم ( خود کلامی): یہ بھی تو جھوٹ تھا۔ خوشیوں کا جلترنگ تو چند لمحے بھی ساتھ نہ دے
سکا۔دکھ درد کے نغمے الاپنے والا اکتارہ اب بھی میرا ساتھی ہے۔
سکھ کی چھایا تو آنی جانی ہے۔ خوشیوں کے نغمے چند لمحوں کے لئے
تو بجتے ہیں اور بس …! درد کے سْر اٹل ہیں … درد کیسْر ان
مٹ ہیں۔ درد کے سْر جیون بھر کے ساتھی ہیں۔
’’ آواز کے سائے ‘‘( ڈرامہ برائے جشن تمثیل 1966ئ )
کردار: اظہر آفتاب (ماہر امراض چشم ،شوخ اور لا اْبالی)
مظہر آفتاب ( اظہر کا بڑا بھائی، لہجے میں غمناک متنات)
نجمہ (انجم) ایک ہی شخص کے دو نام (ذہین او رلہجے میں متزلزل)
اس ڈرامے کے اختتامی کلمات یوں ہیں،
نجمہ ( روتے ہوئے) اظہر۔
اظہر ( زور سے) بھیا مجھے معاف کردو۔ مجھے معاف کردو۔ میں نے … میں نے۔
مظہر تم نے بہت کچھ کہا۔ یہ سب کچھ ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ جیسے
ہوا۔ ورنہ … آ…تمہارا آپریشن کامیاب ہوا ہے اظہر۔
’’ صدف صدف سمندر ‘‘
(1959)کردار … جوسی ( ایک خوبصورت لیڈی رپورٹر )تاسیس انا ( دنیا کے چند دولتمندوں میں سے ایک موتیوں کا کاروبار کرتا ہے۔ معمر)سیکرٹری ( تاسیس انا کا)کچھ اور لوگ۔
جوسی کے ذہن میں ذیل کے ڈائیلاگ گونجتے ہیں۔
’’ کاغذ کے ان پرزوں سے آپ کوئی مزدور تو خرید سکتے ہیں لیکن میرا شوہر نہیں۔
موتیوں کو سمندر سے نکالنے والا میرا شوہر تھا۔ آپ کا شوہر کیوں نہیں تھا۔میں اسے
پال پوس کر ایک مزدور نہیں بناؤں گی۔ جسے آپ جس وقت چاہیں سمندر کے حوالے
کر دیں۔
جوسی کی اپنی آواز وہ قاتل ہے … وہ قاتل ہے … اور تم نے اس قاتل کے گھر میں پناہ لی ہے۔ وہ پتھر
ہے۔ اور تم نے اسے محبت بھرا دل سمجھ رکھاہے۔وہ جذبات و احساسات کا کھنڈر ہے۔
اور تم نے اسے خلوص کا خزانہ سمجھ رکھا ہے۔وہ چاندی کی بنی ہوئی دیوار ہے اور تم نے
اسے عظمت کا آئینہ بنا رکھا ہے۔
ڈرامہ ’’ میرا سایہ ‘‘
کردار … واحد ، شرف ، بابا اور دیگر
واحد (خود کلامی) آج شرف کی سالگرہ ہے۔ او رایک اہم فیصلہ ہونے والا ہے تم جانتے ہو
یہ اہم فیصلہ کیا ہے۔سالگرہ کے موقع پر ایک اور برسی …برسی… تمہاری
محبت کی۔ ایک حقیقی انسان کی محبت کی … اک مصنوعی انسان نے تمہاری
محبت پر ڈاکہ ڈالا …تمہارے سچے جذبات تمہارے احساسات تمہاری اپنی
سوچ پر شب خون مارا۔ جس نے تمہارا بھائی بن کر ، وحید بن کر تمہارے ہی
ارمانوں کا گلا گھونٹا… تمہاریہی خون نے تم سے زندگی کا حق چھین لیا۔ اور
تم اندھے بن کر اسے دیکھتے رہ گئے۔ اس نے تمہارا ہی سایہ بن کر ، تمہارا
ساتھ چھوڑ دیا۔ اور تم نے گھٹی ہوئی روشنیوں میں پناہ لی۔ لیکن کب تک ،
کب تک ، اپنے ہی احساس کی چھنگاریوں میں سلگتے رہوگے۔ کب تک۔
اپنے سینے کے بھپرے ہوئے طوفان کو روک سکو گے۔ کب تک اپنے آپ کو
مارتیر ہو گے۔ اپنے وجود کو فنا کرتے رہو گے۔ تم ایسا نہیں کر سکتے۔ تم وحید
کو ختم کر سکتے ہو۔ میں اس بنا وٹی وجود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردوں …
ہمیشہ کے لئے … میں اسے زندہ نہیں چھوڑونگا… زندہ نہیں چھوڑونگا۔
ڈرامہ ’’ خمارِ ہستی‘‘
کردار … صفورہ، پروفیسر آدم ، نعیم اور کچھ دوسرے
نعیم ( دور سے) صفورہ … صفورہ … کیا ہوا صفورہ کہاں ہے؟۔
ملازم جی ابھی یہاں کھیل رہی تھی۔ پھر وہ سوئمنگ پول کی سیڑھیوں پر چڑھ گئی۔
میں … میں سمجھا یوں ہی کھیلے گی۔ چاند کو پانی … پانی میںدیکھ کر … چاند
… چاند کہہ کر گئی اور ڈوب۔
نعیم خاموش … خاموش…!
صفورہ (گلوگیر) صفورہ تم … تم نے۔
Echo کے ساتھ
پروفیسر کی آواز صفورہ، تم میرا شاہکار ہو۔ میری زندگی کا سرمایہ … میری تجربات کا تاج محل
نعیم ( صفورہ۔ گلو گیر کے ساتھ ۔ صفورہ
ڈرامہ’’ گداز ایک پتھر‘‘
کردار
رفعت احمد ( ایک وکیل، منطق کو جذبات سے پرکھتے ہیں)
تسلیم احسان (گداز پتھر)
صادقہ (فعت کی شہک وکالت ، فطرتاً منفرد ، ضدی)
ملازم (رفعت احمد کا)
منتظر اختر ( ایک او رشخص)
شاذی ( تسلیم کی راز دار سہیلی )
اور چند آوازیں
تسلیم مجھے دے میں کھول لیتی ہوں۔
(پیکٹ کھولنے کا تاثر) اوہ … یہ تو … یہ تو۔
وہی چیک ہے اور یہ خط … یہ تحریر
شاذی پڑھو … پڑھو
تسلیم یہ خط تو … یہ خط تو۔
مجھے اپنے مقدمہ کا معاوضہ مل چکا ہے۔ اس لئے یہ چیک لوٹا رہا ہوں۔ میں
آپ کی سالگرہ میں شریک نہ ہوسکا اس کا مجھے افسوس ہے ، غالباً اس تحریر سے
یہ تو اندازہ لگالیا ہوگا۔ آپ نے کہ …… لیکن تم تو سوچتی ہوگی کہ منتظر اختر
قتل ہوچکا … مس تسلیم دکھ تو اس بات کا ہے کہ آپ آج تک یہ نہ پہچان
سکیں کہ آپ کا منتظر کون تھا۔
منتظر اختر … یا آپ کا ہمیشہ کا منتظر … آپ کو میرے نام تک سے نفر ت
تھی… اس لئے … اس لئے … خیر جانے دو … فقط آپ کا ہمیشہ کا
منتظر ……رفعت
(تسلیم کی سسکیاں)(2(
یوں تو کسی بھی شخص کے زندگی کے پہلو?ں کا مکمل طورپر احاطہ کرنا ناممکن ہے۔مگر اگر ہم عطاشناسی کے حوالے سے کتابوں کے دستیاب مواد کا مطالعہ کریں تو ہر صفحہ پر ایک نئی صورتحال عطاشاد کے حوالے سے ہمارے سامنے عیاں ہوگا۔یہاں عطاشاد کے بلوچی شاعری سے ایک نظم ’’ پھلانی خشکیں پن‘‘ بمعہ اْن کے ترجمہ شامل کر رہے ہیں۔
پھلانی خشکیں پن پہ چوں بے وسی
تئی سیاہیں ملگورانی شنگیں دا من ئ َ
چوکہ منی ارس رچنت
گیریت منا سیاہ تہاریں عاقبت
گوں خشک و ہناریں دلانی واہگاں
صحب ئ ِسمیں تاں پلو ئ َ کیت و گوزیت ؟
واب اوں کہ آگاہ اوں نہ زانیں مرتگوں کہ زندگوں
دور مں چنال ئ ِ سارت و پیکیں ساہگ ئ َ
چوں نشتگے؟
گوں شیشگیں آپ ئ َ
پہ دست ئ َمنگلیک
پادانی پادینک ئ ِ شیلنک
گوازی کنے ،
او من
دوراچ چنال ئ ِ سارت وپیکیں ساہگ ئ َ
گوں نیم روچی ئیں الاہوشاں ترا چاریں
کہ چوشارا اوں تئی
تاپ انت و ازانی سرا
سگیت روچ ئ َکنٹگیں بر مشاں
پہ پھلیں بانک ئ ِپھیلیں رضا
بانک بزور اے آسمی پھلاں
کہ دوشی گوشتگ میرا منا
بیوانک بے ، چوں وانگ بے
چک جنے و پاد کائے
چوں مناچارئے
سراوں جہل بیت
او چم اوں کپیت
پہ باد گیر ئ کنگراں
آپ ئ ِ تہا
گندیں وتی ماں داتگیں بشک ئ َ
گوں چنڈیں چادر ئ َ
دست ئ کٹار و کوپک ئ ِ برواوں کپیت
دل چوجنیں زہگانی شہد و شکلیں واب پروشیت
صحب ئ ِ سمیں تاں پلو ئ َ کیت و گوزیت
ترجمہ:
پھولوں کی خشک پتیاں
پھولوں کی خشک پتیاں کیسی بے بسی سے
تیری گھنگور زلفوں کے پھیلے دامن پر
میرے آنسو?ں کی مانند کر رہی ہیں
اور مجھے ، میری تارو تاریک عاقبت
اپنی نا تمام و نامراد آرزووئں سمیت دبوچ لیتی ہے
باد صبا کس سمت سے آئی ، اور کس سمت جارہی ہے ؟
مجھے پتہ نہیں کہ میں سورہا ہوں کہ جاگ رہا ہوں، زندہ ہوں یا مردہ
دور … چنار کے گھنے خنک سایہ تلے
کیسی بیٹھی ہو؟
او رشیشوں جیسے شفاف پانی میں
ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں
اور پیروں میں چاندی کے پازیب کی آواز جگائے
تم کھیل رہی ہو
اور میں
دور … اس چنار کی گھنی ٹھنڈی چھا?ں سے پر ے
دوپہر جیسی گرم پیاس کی طرح تمھیں دیکھتاہوں
کہ میں تیرے آنچل کی طرح ہوں،
جو داز کی جاڑی پر سوکھنے کے لئے بچھی ہوئی ہو
اور سورج کی کانٹوں جیسی گرمی سہہ رہی ہو
پھول جیسی بانوکی پھول جیسی رضا کی خاطر
بانو! یاسمین کے یہ پھول لیجیئے
کہ کل رات میر نے یہ پہنچانیکو کہا تھا
تم کس لاپرواہی اور حیرت سے اٹھتی ہو
مڑکر مجھے دیکھتی ہو
میرا سرجھک جاتا ہے
اور میں دیکھ لیتاہوں
محل کے میناروں کو
اسی شفاف پانی میں
اور اپنی پھٹی پیوندزدہ قمیض کو،
جس پر بوسیدہ چادر کا ٹکڑا ہے جو مجھے نظر آتاہے
تو میرے ہاتھ کی آری اور کندے کا بیلچہ گر جاتا ہے
میرا دل دوشیزہ کے شہد جیسے میٹھے خواب کی طرح ٹوٹ جاتا ہے
باد صبا کہاں سے آئی او رکہاں جارہی ہے۔(3)
اس عزم کے ساتھ ہم اس تحریر کو اختتام دیتے ہیں کہ ہم عطاشاد اور اْن کے ہمنوادیگر شعرائ ،ادیبوں اور شخصیتوں کے حوالے سے معلوما ت حاصل کرنے اور اْن کی جدوجہد کے پہلو?ں کو جاننے کو اپنا مقصد بنائیں گے۔
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آئی تو پلٹ کر ہمیں دیوار کیا
:نتائج
کسی بھی طالب علم یا ملازمت کے حصول کے لئے ہر امیدوار کو اپنا سی وی ترتیب دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں۔جن کا کام اور سی وی وہ بذات خود ترتیب نہیں دیتے بلکہ اْن چاہنے والے اور اْن سے رہنمائی حاصل کرنے والے افراد یہ کام سر انجام دیتے ہیں اور یہ چیزاْس وقت اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے جب کوئی شخصیت بذات خود دنیا میں موجود نہ ہو۔بعض شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہ اپنا کوئی معلوماتی مواد اکٹھا نہیں کرپاتے بلکہ اْن کی جانب سے تحریر کیاہوا ہر مواد عوام یا مختلف اداروں کی ملکیت قرار دیاجاتا ہے تب ایسی حالت میں عوام او راداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اْس شخص کے کام اور خدمات کو اکٹھا کرکے اْن کا اعتراف کریں۔ بعض اوقات یہ چیز شعوری یا لاشعوری کا شکار ہوجاتی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض لو گ ایسے ہوتے ہیں کہ اْن کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی اْن کی ذمہ داریاں یا اْن کا منصب ایسا ہوتا ہے کہ جہاں وہ دن اور رات کے زیادہ تر اوقات مصروفیات میں گزارتے ہیں۔ایسی شخصیات کے قریب رہنے والے طالب علم اور اداروں کو چاہئے کہ اگر وہ شخص زندہ ہے تو اْن کی محفل میں یا گفتگو کے دوران بہت سارا مواد کو اکٹھا کرنے کا یہ کام بخوبی انجام دیں۔ اگر وہ شخص ہمارے درمیان نہیں تو اْن کے خاندان اور دستیاب مواد کو اْن کے دور کے حالات اور واقعات کی روشنی میں پرکھ کر ان کو مزید پروان چڑھاسکتے ہیں۔
…………
حوالہ جات
1۔مراد ،افضل’’ جب نیند ورق الٹے گی ‘‘فیصل بکس کوئٹہ ،2017،ص،11 تا13
2۔ مینگل ، حلیم ،’’آواز کے سائے ‘‘،پاکستان رائٹرز گلڈ بلوچستان ، 2021ئ ص ،(مختلف صفحات)
3۔ بلوچ ، حکیم ، شبیہ شاد،، قلات پبلشر (اشاعت دوئم) 2003, ص،69 تا 72