بات پرانی جزبات نئے

تحریر : برکت مری
میں سادہ بلوچ ہوں ،میر ،نواب، سردار، کیانی، باجوا، گنڈا پور، چودھری، منشیات فروش نہیں ہوں اس لئے مجھے انصاف نہیں ملتا اگر میں میر نواب سردار کیانی باجوا گنڈا پور چودھری منشیات فروش پنجاب کا ہوتا مجھے ضمانت ضرور ملتی یہ جملے ہدایت الرحمان کیلئے نئی جزبات ضرور ہے لیکن بلوچ قومی تحریک کیلئے پرانے ہیں ۔انہی جملے کو نواب اور سرداروں نے بھی ملک کے زمہ داروں سے کئی بار سوال کئے ہیں اس جملے میں بہت سے نام پر اتفاق و باز پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے اگر ہماری یاداشت درست ہو تو نواب خیربخش مری کی ناراضگی بھی یہی تھا کہ ملک کے آئین قانون بلوچستان کیلئے نہیں بلکہ پنجاب کیلئے ہے بلوچستان میں طاقت پنجاب میں ڈائیلاگ کا راہ اپنایا جاتا ہے اگر دیکھا جائے تو سردار عطا اللہ مینگل کا موقف بھی یہی تھا ۔انہوں نے بلوچ قومی ایشو کو حل کرنے کیلئے اسمبلی پارلمینٹ کا فورم استعمال کیا لیکن مایوس ہوا رحلت سے سال دو سال پہلے انہیں صدر پاکستان بنانے کے آفر بھی ہوئی ،انہوں نے انکار کیا کہ اس بے توقیر عہدے کو کیا کروں جس سے میرے قوم کو کچھ حاصل نہ ہو ۔نواب غوث بخش بزنجو نواب نوروز نواب اکبر بگٹی دیگر کئی بلوچ سردار نواب تھے وہ اداروں و پاکستان کے آئین سے مایوس تھے اگر کوئی کہے کہ بلوچستان کے عوام کی بنیادی مسائل کا حل پارلمنٹ اسمبلی ہے تو ہم خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں ہم نے ستر سالوں سے بلوچستان اسمبلی کی میعاد کم و بیش سے دیکھا ہے کوئی ایک بنیادی حقوق سائل وسائل صحت ایجوکیشن ذرائع ابلاغ مواصلات لاپتہ افراد کی بازیابی ودیگر کسی ایک کا نام بتائیں جو پارلمنٹ نے حل کئے ماسوائے ٹھیکداری کے، پارلمنٹ میں بیٹھے لوگ کچھ الیکٹ بیشتر سلیکٹ ہوکے جاتے ہیں جو الیکٹ ہوتے ہیں وہ تنہا ہوکر ان سلیکٹوں کے ساتھ گل مل جاتے ہیں ۔ان سے گل مل جانا انکی مجبوری ہے اور اسمبلی کے کردار و تمام تر تقاریر ذاتی مفاد عامہ ہیں کئی تقاریر سلیکٹ شدہ ہوکے پڑھے جاتے ہیں آپ کو یاد ہے سابق صوبائی وزیر اعلیٰ جام کمال نے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے اس پیش کردہ بجٹ کا کوئی علم نہیں ہے میں نے انہیں صرف اسمبلی آتے دیکھا ہے جو بجٹ ہم نے تجویز و بنائی ہے وہ اور تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان بجٹ ہو یا کوئی تقاریر ہو وہ پارلمنٹیریئن کی کہیں سے آتے ہیں ایسے معاملات ہیں جو ظاہراً اور سے بن کر آتے ہیں ۔دوسری جانب مولانا ہدایت الرحمان عدالتوں کے انصاف سے اس لئے مایوس ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت پی ڈی ایم سپریم کورٹ جیسے سپریم ادارے جو ملک کی بقاء ہر طبقہ کا آخری سہارا و امید ہے جس کے ہر فیصلے جن کے ہر مہر و دستخط اؤل و آخری مانا جاتا ہے لیکن وفاقی حکومت انکے فیصلے کو ماننے سے انکاری ہے ۔وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی انکاری اور من پسند انصاف جیسے تاثر نے عام عوام کے ساتھ مولانا ہدایت الرحمان اور ملک کے اندر رہنے والے کئی مظلوم اقوام بلوچ ہوں یا پشتون یا دیگر کئی کیسز کئی ماہ و سال جو التواء کے شکار ہیں وہ مایوس نہیں تو کیا ہونگے ۔یہی سوچ کر کہ وفاقی حکومت نااہلی کے مرتکب ہیں کیوں انہیں توعین عدالت کے کیس نہیں لگتے ہیں ملک بھر میں سیاسی عدالتی بحران پنجاب و کے پی کے کے الیکشن کے سوموٹو ایکشن سے شروع ہوا ۔پی ڈی ایم واضح سمجھ رہا ہے کہ الیکشن میں عمران خان پھر جیت سکتے ہیں اگر جیت گئے تو نواز شریف سمیت کئی رہنماؤں کی پانامہ کیس و دیگر نااہلی کیس ختم نہیں ہوسکتے ہیں ۔پی ڈی ایم بضد ہیں کہ جب وہ اقتدار میں ہیں وہ کیس ختم کرسکتے ہیں اگر اقتدار چلی گئی تو پھر ان کیسز کا ختم ہونا ناممکن ہے ۔پی ڈی ایم کی عدالتی فیصلے کی مخالفت اور پی ٹی آئی کی الیکشن کرانے کے عدالتی فیصلے کی حمایت نے ملک میں انا کی صورتحال پیدا کی ہے ۔اس لیے ہر مظلوم یہی سمجھ رہا آور عدالتوں سے مایوس ہوئے ہیں کہ غریبوں کیلئے الگ عدالتی نظام و امیروں کیلئے الگ قانون ہے ۔مولانا ہدایت الرحمان کے جذبات بھی درست ہیں جہاں تک مولانا ہدایت الرحمان کی ایک اور سوال بھی عام لوگوں کیلئے تجسّس کا باعث ہے کہ میں آئین و عدالت کا مجرم نہیں ہوں حالانکہ ان پر 19 بغیر ٹھوس ثبوت کے کیس لگائے گئے جس پر قانونی آئینی ضمانت کی گنجائش موجود ہے لیکن سیاسی مداخلت نے اداروں کی امیج کو بھی نقصان پہنچایا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ جس کی حکومت اداروں کے سزا جزا کے اختیارات انکی کے ہیں ۔عام و سیاسی مخالفین کے بنیادی حقوق و انصاف بغیر اقتدار کے سوال پیدا نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں میں دو شخص کا قیدی ہوں تو بات بھی قابل غور ہے کہ ہر وقت بلوچ قومی حقوق کی تحریک کے سامنے بلوچ قوم ہی کھڑا رہا ہے ۔اگر آج بلوچ قوم اپنی حقوق کی جدوجہد میں تقسیم در تقسیم کے شکار نہ ہوتے تو بلوچستان میں کوئی مسلہ ہی نہیں تھا ۔ہمیں سیاسی مزاحمت میں غیروں سے زیادہ اپنوں نے نقصان دیا ہے ۔بلوچستان کی احساس محرومی احساس کمتری احساس مایوسی تب ختم ہوگی جب ہم اپنی ذاتی مفادات کو ختم کرکے قومی مفادات کیلئے اکھٹا نہیں ہونگے ۔آج مولانا ہدایت الرحمان سیاسی قیدی ہیں کل کوئی اور ہوگا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔