امریکہ یا چین: پاکستان کیلئے درمیانی راستہ کوئی نہیں!

تحریر: حفیظ حسن آبادی
اس وقت پاکستان جس بدترین سیاسی افراتفری، معاشی بدحالی اورعدالتی بحران کاشکار ہے اس کی کئی اندرونی وجوہات ہیں جس میں وہاں قومیتوںپر نوآبادیاتی طرز حکمرانی، حکمرانوں اور سرکاری عہدیداروں کی بدعنوانیاں، مقتدرہ کی سیاست میں طویل و بلا شرکت غیرے مداخلت، عدلیہ کا طاقتوروں کی پشت پناہی کی لمبی تاریخ، حکمرانوں اور مذہبی عناصر کا سیاسی مقاصد کیلئے مذہب کا بے دریغ و ناجائز استعمال اور افغان جہاد کے بہانے امریکہ کی مالی وتکنیکی مدد سے لاتعداد مدارس کو انتہا پسند پیدا کرنے کے کارخانوں میں تبدیل کرنے جیسی درجنوں وجوہات شامل ہیں مگر اس وقت ان سب سے بڑھ کر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اس اہم بین الاقوامی صف بندیوں کے دہرائے پر اس امتحان سے دوچارہے کہ وہ امریکہ یا چین کس کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ یاد دہانی لازم ہے کہ موجودہ عالمی سیاسی تناظر میں امریکہ، روس و چین کو ایک مشترک قوت کے طور پر دیکھتا ہے، اس لئے ان دونوں میں سے کسی ایک سے قربت کو دونوں کو ریلیف پہنچانے کے مترادف سمجھتا ہے۔
یوکرائن میں روس کے اسپیشل آپریشن کے بعد عالمی سیاست میں ایک بھونچال آچکا ہے، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی دنیا میں روس اور چین کو تنہا کرنے کیلئے اپنے تمام دستیاب وسائل، قوت و اثر و رسوخ صرف کررہے ہیں لیکن ان کیلئے مشکل یہ ہے کہ وہ ہندوستان، چین، جنوبی افریقہ، برازیل، یا سعودی عرب جیسے درجنوں ممالک پر حکم چلانے کی پوزیشن میں نہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں اپنا رعب و دبدبہ دکھانے کی ضرور سکت رکھتے ہیں اور جو کچھ اس وقت پاکستان میں ہورہا ہے وہ اسی خواہش کا نتیجہ ہے کہ امریکہ پاکستان سے نہ صرف روس اور چین کیخلاف واضع مخالفانہ رویہ اپنانے کا متمنی ہے بلکہ یہ کہ وہ افغانستان کو بھی عملی طور پر روس کیخلاف صف آراءدیکھنا چاہتا ہے جسکی ذمہ داری اس (پاکستان) نے امریکہ طالبان دوحہ مذاکرات میں اٹھائی تھی اور امریکہ نے اس کی ثالثی و گارنٹی پر پندرہ دن میں افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا تھا۔ گو کہ افغانستان کے موجودہ حکمران، امریکہ اور پاکستان اس بات سے انکاری نظر آتے ہیں کہ ان کا امریکہ کیساتھ کوئی خفیہ معاہدہ موجود ہے جس کی رو سے کابل میں اقتدار کی منتقلی ہوئی ہے مگر ان کے پاس اس سوال کا بھی جواب نہیں کہ وہی طالبان جو بیس سالہ جنگ میں افغانستان کا ایک گاﺅں تک پر قبضہ نہ کرسکے اچانک پندرہ دن میں پورے کا پورا ملک فتح کیا اور تین لاکھ کے قریب افغان مقتدرہ کہیں بھی باقاعدہ سرنڈر ہوئے بغیر کہاں غائب ہوگئی؟
چنانچہ حالیہ سیاسی و اقتصادی بحرانوں میں شدت کی وجہ بھی یہی ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ ادھر اُدھر کی باتیں چھوڑ کر براہ راست یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ وہ امریکہ یا چین کسی ایک کے ساتھ کھل کر کھڑا رہے۔ ظاہر ہے امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ ون چائنا پالیسی، تائیوان، بحرہ جنوبی چین، ہانگ کانگ، سنکیانگ، تبت کے مسائل اور چینی ون ٹریلین ڈالر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر چین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے اور یوکرائن میں روس کے خلاف جنگ میں ہماری مکمل حمایت کا اعلان کرے۔
یہ بات امریکہ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ جب تک وہ یوکرائن مسئلے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ بری طرح الجھا ہے اس دوران روس اور چین اس ریجن میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور وسیع پیمانے پر توانائی کے وسائل تک رسائی کی کس ناقابل واپسی حد تک آگے جاسکتے ہیں اور وہ اب شاید یہ بھی ادراک کرچکے ہوں گے کہ وہ روس اور چین کو روکنے والی جس جنگ کو چھیڑ چکے ہیں وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے بند گلی اور روس و چین کیلئے نئی شاہراہیں کھولنے کا سبب بن رہا ہے۔
امریکہ کی حواس باختگی و ہیجانی کیفیت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھے ارباب اختیار اس مسئلے کے گمبھیر ہونے کا احساس تو رکھتے ہیں مگر اس کا حل انکے پاس نہیں اور وہ مسئلہ ان سے سنبھالا نہیں جارہا، اس لئے وہ چاہتے ہیںکہ یہ مشکل پاکستان یہاں سستے دستیاب پروکسیز کے ذریعے ان کیلئے حل کرنے میں مدد کرے۔
امریکہ پاکستان تعلقات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کو کسی بھی امریکی منصوبے پر کام کیلئے آمادہ کرنے ہمیشہ سے مقتدرہ ہی سے رابطہ کیا گیا ہے اور مقتدرہ ہی نے انکی ساریں فرمائشیں پوری کی ہیں جبکہ سیاستداں تو ہمیشہ مقتدرہ سے مراعات لیکر شو پیس کے طور پر استعمال ہونے کیلئے لائن میں لگے رہے ہیں۔
آج بھی عمران خان ہوکہ شہباز شریف اس بڑی جنگ میں بالکل بھی مرکزی کردار نہیں کررہے کیونکہ اصل فیصلے اب بھی پاکستانی مقتدرہ کررہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ یہ حقیقت وہ بھی جانتے ہیں اور پاکستانی سنجیدہ طبقہ بھی جانتا ہے کہ امریکہ ہو کہ چین آج بھی فیصلہ کن گفت و شنید کیلئے مقتدرہ کی گارنٹی یا یقین دہانی کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت کو حتمی قوت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔
مگر اس بار پاکستان کی الجھن یہ ہے کہ نہ وہ امریکہ کو ناراض کرسکتا ہے اور نہ امریکہ کی فرمائش پر چین سے تعلقات قطع کرنے کا سوچ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے پاکستانی جوڈیشری، مقتدرہ اور سیاستداں دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ایک گروپ جوڈیشری کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر اس کوشش میں لگا ہے کہ ایسی حکومت آئے جو چین کے پاکستان میں تمام منصوبوں کو کسی نہ کسی طرح روکے جس کے بدلے امریکہ پہلے کی طرح مہرباں ہوگا اور ڈالرز آنا شروع ہوں گے جبکہ دوسرا گروہ جسمیں مقتدرہ اور سیاستدانوں کا ایک گروپ پی ڈی ایم کی شکل میں شامل ہے کی خواہش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح حسب سابق دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھیں اور کوئی انہیں کسی سے رابطہ رکھنے یا نہ رکھنے پر مجبور نہ کرسکے مگر وہ طویل مدت کیلئے ایسا کر نہیں سکتے کیونکہ وہ اپنی آزاد پالیسی کا حق اپنے ہاتھوں سے بیجنگ اور امریکہ میں ففٹی ففٹی کرکے گروی رکھ چکے ہیں۔
چین سے تعلقات میں پاکستان کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ اس کیساتھ درجنوں ایسے معاہدات کرچکا ہے جنکی تفصیل مقتدرہ کے سوا کسی کے پاس بھی نہیں یہاں تک کہ سیندک پروجیکٹ اور سی پیک معاہدات بارے جو باتیں منظر عام پر آئی ہیں وہ عمومی اور بالکل سطحی ہیں اور تو اور بلوچستان جو سیندک اور سی پیک کا اصلی اور معتبر اسٹیک ہولڈر ہے اسکی عوام تو دور کی بات ہے اس کے پارلیمنٹیرینز تک کو معاہدات کے تفصیلات کا علم نہیں ۔
اسی طرح امریکہ کیساتھ پاکستان کے اتنے گہرے اور محرمانہ تعلقات ہیں کہ امریکہ پاکستان کو اپنا اسٹراٹیجک پارٹنر کہتا ہے اور پاکستان نے ہمیشہ امریکی مفادات کے دفاع کے خاطر چوکیدار کا کردار ادا کیا ہے۔ تاہم یہ الگ بحث ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کی صداقت کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے، ہدف تنقید بنایا ہے اور اس پر انگلیاں اٹھائی ہیں۔
امریکہ پاکستان تعلقات میں تمام تر ناہمواریوں کے باوجود اس ریجن میں ہر مشکل وقت میں امریکہ نے پاکستان کی مالی مدد کی ہے، اسے اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے، عالمی مالیاتی اداروں اور اپنے زیر اثر سرمایہ دار ممالک سے قرضہ دلاتا رہا ہے، اس کے فوجیوںکی تربیت کرتا رہا ہے، مختصر یہ کہ ان دونوں کے تعلقات کی ”گہرائی“ بارے اس حد تک کہا جاسکتا ہے کہ یہاں بعض اوقات اہم حکومتی عہدوں پر کسی کو لانے یا ہٹانے پر بھی امریکہ کی رضا مندی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے، جس کا کسی آزاد ملک میں تصو ر بھی محال ہے۔
حرف آخر: جو بین الاقوامی صف بندیاں ہورہی ہیں اس میں امریکہ کی خواہش ہوگی کہ نہ صرف پاکستان وافغانستان میں بلکہ ریجن میں چین کے تمام منصوبے سرد خانے کی نذر کیے جائیں اور یہاں نہ صرف یہ کہ پاکستان روس سے کسی قسم کے تعلقات آگے نہ بڑھائے اور خاص کر اقتصادی تعلق تو بالکل بھی نہیں کہ جس سے اس کا روس پر انحصار کے امکانات پیدا ہوں اور روس کے وہاں اپنے اثرات بڑھانے کی راہیں کھلیں۔ بلکہ یہ کہ پاکستان انکے علاوہ افغانستان میں دو کاموں میں سے ایک کام ہر صورت میں انجام دے۔ پہلا یہ کہ پاکستان افغانستان کے ذریعے سینٹرل ایشیا اور چین میں اسلامی انتہا پسندوںکو منظم کرکے میدان میں اتارے جن کو ہزاروں کی تعداد میں افغان جنگ کے بہانے امریکہ کی مالی و تیکنیکی مدد سے پاکستان اور امریکہ نے مل کر چالیس سال کے طویل عرصے میں بڑی جانفشانی سے تیار کیا ہے تاکہ تائیوان میں کسی بھی بڑی کشیدگی سے قبل چین کیلئے ایک مشکل موجود ہو جس کو بہ وقت ضرورت اُبھارا جاسکے، ٹھیک ایسے ہی سینٹرل ایشیا ممالک میں روس کو مصروف رکھنے کیلئے گوریلہ جنگوں کا محاذ کھولا جائے، دوسرا اور بہت ہی خطرناک و خونین منصوبہ یہ کہ اگر ایسا مشکل ہے تو افغانستان میں شدید خانہ جنگی پیدا کی جائے تاکہ افغانستان شورش و خانہ جنگی کے باعث اس وقت تک سب کیلئے نوگو ایریا بنا رہے جب تک امریکہ یوکرائن کے مسئلے سے فارغ ہو کر اس ریجن میں پہلے کی طرح تمام تر توجہ مبذول کرنے کی پوزیشن میں دوبارہ نہ آئے۔
پاکستان سے امریکہ کی ایسی خواہش کوئی نئی بات نہیں اور انکے تعلقات کے تناظر میں یہ معیوب بھی نہیں کیونکہ پاکستان ماضی میں امریکہ کیلئے سب کچھ کرچکا ہے مگر اب کے بار پاکستانی مقتدرہ اس پوزیشن میں نہیںکہ امریکہ کے کہنے پر ”جہاد“ کے چند فرنٹ کھول سکے کیونکہ وقت بدل گیا ہے اب نہ امریکہ پہلے کی طرح پیسہ پانی کی طرح بہانے کی طاقت رکھت اہے جو خود دیوالیہ ہونے کے کگھار پر کھڑا ہے اور نہ افغان سرحد کے دونوں طرف پہلے کی طرح کہیں اور یا آپس میں جنگ کیلئے بلا سوچے سمجھے ہتھیار اُٹھانے کیلیے لوگوں کو قائل کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ افغان قیادت میں ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جن کے بچے پاکستان میں ہیں یا انکا بزنس پاکستان یا پاکستانی پاسپورٹ سے مربوط ہے اور وہ پاکستان کی ناراضی مول نہیں لے سکتے، مگر وہاں انکے مقابل ایسا مضبوط گروپ بھی موجود ہے جو اس دلیل کے ساتھ کھڑا ہے کہ ہم مزید کسی بھی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے اور ان میں ایسے خیالات رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں جو افغانستان میں تمام بدبختیوں کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ایسے الگ الگ خیالات کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ مل کر بھی نئی افغانستان حکومت سے سو فیصد وہ کام نہیں لے سکتے جسکی وہ انہیں اقتدار میں لانے سے پہلے توقع رکھتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے امریکہ کی نسبت چین کو امریکہ پاکستان تعلقات پر کوئی خاص تشویش نہیں یا کم از کم بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ اس تمام کشمکش کے باوجود اُس کا فوکس اپنے منصوبوں پر ہے۔
اس اطمینان کے دو وجوہات ہوسکتی ہیں پہلے یہ کہ چین نے امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھے ہیں اور پاکستان کی طرف سے بھی مطمئن ہے کہ جو معاہدات اس کے ساتھ دستخط ہوئے ہیں پاکستان انکی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا یا یہ کہ اسے مکمل یقین ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا برا وقت چل رہا ہے اس لئے روس اور چین کیخلاف ان کا ہر منصوبہ ناکام ہی ہوگا اور یوکرائن میں جنگ کے خاتمے تک روس انکو ایسے نچوڑے گا کہ نہ وہ تائیوان میں چینی منصوبوں کے سامنے مزاحمت کی پوزیشن میں ہوں گے اور نہ سی پیک و نہ ون ٹریلین ڈالر منصوبہ، ون بیلٹ ون روڈ کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی کرسکیں گے لہذا وہ اطمنان سے اپنی توجہ اپنے اہداف پر مرکوز کئے ہوئے ہے۔
جہاں تک پاکستان کے واضح پوزیشن لینے کا سوال ہے تو اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ اور عمران خان دونوں کا بخار بہت جلد مکمل طور پر اُتر جائے گا کیونکہ عدلیہ ہمیشہ مقتدرہ کے پیچھے رہی ہے اور سارے لیڈر بھی فوج کی نرسری سے نکل کر آئے ہیں کوئی ایوب خان کا بیٹا بن کر ابھرا ہے تو کوئی ضیاالحق، مشرف، پاشا و باجوہ کا لاڈلہ بن کر لیڈر بنا ہے اور ان سب کے کیریئر کے غروب میں ایک قدر ہمیشہ مشترک رہی ہے کہ جب بھی انہیں یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اپنی قابلیت سے عوامی لیڈر بن چکے ہیں ان پر زوال آیا ہے اور مقتدرہ نے سر سے ہاتھ ہٹا کر ان کو انکی اوقات یاد دلائی ہے۔
عدلیہ بھی ہمیشہ فوجی ڈکٹیٹرز کے غیرقانونی اقدامات کو قانون کا ٹھپہ لگا کر مخلوق پر مسلط کرچکی ہے اور جب بھی خود مختار اور سپریم ہونے کے زعم میں مبتلا رہی ہے اس کے فیصلوں کو آئین سمیت کاغذ کا ٹکڑا قرار دے کر بے توقیر کیا گیا ہے۔
اس حساب سے یہ بات طے ہے کہ اس بار بھی مرضی مقتدرہ کی ہوگی اور چین سے مخالفانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب کیا جائے گا مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کی اس ”غیر جانبدار“ پوزیشن کو قبول کرے گا؟ غالب امکان یہی ہے کہ امریکہ پاکستان کو اسکی اجازت نہیں دے گا۔ چنانچہ اگر امریکہ کے دباﺅ پر پاکستان سنکیانگ، افغانستان یا سینٹرل ایشیا میں کہیں بھی چینی مفادات کے سامنے رکاوٹ کے طور پر نظر آیا تو چین کا ردعمل امریکہ کی نسبت بہت جارحانہ اور غیر متوقع ہوسکتا ہے۔ امریکہ سے شدید اختلافات کی صورت میں پاکستان میں اگر افراتفری پھیل کر اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو امریکہ پاکستان کی چار کمزور رگوں پر ہاتھ دبائے گا پہلا بلوچ تحریک کی کھل کر حمایت کرے گا دوسرا اپنے اتحادیوں کیساتھ مل کر اقوام متحدہ کے ذریعے پاکستانی ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دے کر ان کے پاکستان کے ہاتھ سے لینے کا اہتمام کرنے کی راہ ہموار کرے گا، تیسرا نہ صرف اسکی مالی امداد بند کرے گا بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کو قرضہ دینے سے روکے گا، چوتھی، سب سے آخر اور اہم بات یہ کہ پاکستانی تمام اختیار داروں نے جو برسوں سے اس ملک کو لوٹا ہے انکے پیسے مغربی ممالک کے بینکوں میں پڑے ہیں اگر امریکہ روس کے عام لوگوں کے پیسوں کو مغربی ممالک میں منجمد کرسکتا ہے تو حکم عدولی پر پاکستانی حاکموں کے پیسوں کو بھی کرے گا۔ پاکستانی حکمران اپنے ملک پر تمام بندشیں برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنی جیب پر یہ وار کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
جہاں تک چین کا سوال ہے وہ بھی اپنے ہاتھ میں دو تُرپ کے کارڈ رکھتا ہے پہلا اس کا پاکستان کیساتھ درجنوں معاہدات ہیں جن کے پبلک ہونے سے پاکستان داخلی اور خارجی طور پر کتراتا ہے، دوسرا اور غیر متوقع کارڈ بلوچستان کا ہے کیونکہ اس سلسلے میں دو باتیں بالکل واضح ہیں پہلا بلوچستان ہی سے پاکستان کی اہمیت ہے دوسرا بلوچوں کو پاکستان نے اس حد تک بیزار کیا ہے کہ پورا بلوچستان کب کا ایک بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے اور اس حقیقت کوچین سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور اس کی دوستی بھی بلوچستان کے ساحل و وسائل سے ہے، اسے ان تک کوئی بھی رسائی دے اس سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یوکرائن اور روس کی جنگ طول پکڑ گئی توکم از کم اس ریجن میں کوئی بھی نیوٹرل نہیں رہ سکے گا اور درجنوں میدان جنگ سجیں گے لیکن اس میں صرف ان قوتوں کو کامیابی ملے گی جو جانتے ہیں انہیں کیا چاہیے اور وہ اس کیلئے عملی طور پر متحد جدوجہد کررہے ہیں، جوقوتیں منتشر ہیں وہ رستے میں بکھر کر لتاڑی جائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں