بلوچستان ہائیکورٹ نے شہری کی درخواست پر ریٹائرڈ افسران کو جاری مراعات کا حکومتی اعلامیہ غیر قانونی قرار دیدیا

کوئٹہ : بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس شوکت علی رخشانی پر مشتمل بینچ نے کوئٹہ کے رہائشی و بایزید خان خروٹی کی جانب سے دائر ایک آئینی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حکومت بلوچستان کے 15 مارچ 2010 کے اعلامیہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کے تحت جاری شدہ تمام اعلامیو ں واقدامات کو بھی خلاف ضابطہ و غیر موثر قرار دے دیا ہے مذکورہ نوٹیفیکیشن کے تحت بلوچستان میں کم از کم ایک سال تک خدمات سرانجام دینے والے سابقہ چیف سیکرٹریز جو ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر یہاں قیام پذیر ہوں کو کئی ایک مراعات سے نوازا گیا تھا جو کہ ان کی وفات کے بعد بیواگان کو بھی زندگی بھر کے لیے دستیاب تھی معزز عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے پٹیشن کے میمو میں درج بنیادوں اور ایڈیشنل جنرل کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات پر بخوبی غور کیا اور کیس کے ریکارڈ کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا بلاشبہ چیف سیکرٹری ریٹائرمنٹ کے بعد صوبائی بیوروکریسی کا سربراہ ہونے کی وجہ سے زیادہ عزت و وقار کا مستحق ہوتا ہے اور ماضی کی شاندار خدمات کے پیش نظر حکومت کی طرف سے دی جانے والی پینشن کا بھی حقدار ٹھہرتا ہے اسی طرح ریٹائرڈ چیف سیکرٹری یا کسی دوسرے سرکاری ملازم کے لیے مراعات کا استحقاق مخصوص دائرہ اختیار کے قوانین و ضوابط طے کرتے ہیں تاہم اضافی مراعات قانونی حمایت، رولز اینڈ ریگولیشن کے بغیر جائز نہیںکیونکہ ریٹائرڈ چیف سیکرٹریز کو دی گئی مخصوص مراعات ہمیشہ صوبائی حکومت کی متعلقہ قانون سازی قواعد یا پالیسیوں میں بیاں کی جاتی ہے یہاں یہ بتانا بھی اہم ہے کہ ہمارے بارہاں استفسارات کے باوجود فاضل ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل اس بارے ریٹائرڈ چیف سیکرٹریوں کے خصوصی مراعات اور مراعات سے متعلق کسی قانون، اصول یا ضابطے کا حوالہ دینے میں ناکام رہے ہیں اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان کے کمزور اور ناتواں معیشت کے حامل عوام ہر ریٹائرڈ چیف سیکرٹری کو اس طرح کی سہولتیں فراہم کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں جو کہ قانون کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ معزز عدالت نے مزید کہا کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ زیر اعتراض نوٹیفکیشن کے اجراءسے پہلے وزیر اعلی بلوچستان نے سمری منظور کی جس کے تحت یہ مراعات بلوچستان کے لوکل/ ڈومیسائل کے حامل ان چیف سیکرٹریز تک بڑھا دیئے گئے جو مستقل طور پر بلوچستان میں قیام پذیر ہیں معزز عدالت کے لیے یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ وزیر اعلیٰ سے اس سمری کی منظوری کے بعد اس وقت کے سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کی جانب سے ایک نئی سمری وزیراعلیٰ کو پیش کی گئی کہ ان مراعات کا دائرہ کار تمام سابقہ چیف سیکرٹریز تک بڑھایا جائے جس سے سرکاری خزانے پر 27.300 ملین کا بوجھ ڈالا گیا حیران کن بات تو یہ ہے کہ سمری میں صوبائی سروسز کے افسران تک اسی طرح کی سہولیات پیکج بڑھانے کی درخواست بھی کی گئی جس سے صوبے میں ایک سال کی سروس اور مقامی ڈومیسائل کی شرائط کو حذف کرتے ہوئے منظور کر لیا گیا مذکورہ نوٹیفکیشن جو کے قانونی حمایت کے بغیر ہے اور محدود قانونی حیثیت کا حامل ہے یہ کسی فرد کے لئے مخصوص ٹارگٹڈ و انفرادی قانون سازی کی بہترین مثال ہے اور جیسا کہ زیر بحث نوٹیفکیشن ایس اینڈ جی اے ڈی حکومت بلوچستان نے صوبائی کابینہ کی منظوری کے بغیر جاری کیا اس لیے اس ابتدائی نوٹیفکیشن مجریہ 15مارچ2010 اور اس پر مبنی تمام متواتر اقدامات و نوٹیفیکیشن کا اجراءبھی خلاف ضابطہ و غیر موثر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں