ٹیچنگ ہسپتال تربت کا شعبہ ایمرجنسی اسٹاف اور وزیر صحت کا غیر سنجیدگی قابل مزمت ہے

تحریر: شہزاد بدل
صحت کی سہولیات انسان کی ضروری اور بنیادی حقوق میں سے ہی ایک تصور کی جاتی ہیں ہر فرد کو صحت کی سہولیات کی مفت فراہمی کسی بھی ریاست کا بنیادی فریضہ مانا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے بلوچستان حکومت کی نااہلی کی وجہ سے صحت کا شعبہ انتہائی بد ترین حالت میں پایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں اکثر و بیشتر لوگ کراچی جیسے شہر جاکر پرائیوٹ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور وہ ہسپتال بھی خدمت کے نام پر لوٹ مار کرتے ہیں۔
رہی بات ہمارے یہاں بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت کی جہاں مکران کے مختلف علاقوں اور دیہات سے لوگ علاج کی امید سے تربت سول ہسپتال آتے ہیں مگر مراد کسی خوش نصیب کی ہی بر آتی ہے۔ ہسپتال میں نہ دوائیاں، نہ ٹیسٹ کی سہولیات، نہ اچھے ڈاکٹرز، نہ اچھی نرس لیکن مسیحا اپنا رونا رو رہے ہیں، کہتے ہیں روزانہ سیکڑوں مریض علاج و معالجے کے لیے آتے ہیں، بدنصیبی سے ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا علاج نہیں کروا سکتے۔ ٹیچنگ ہسپتال اور خاص کر شعبہ ایمرجنسی کی حالت زار دیکھ کر لگتا ہے کہ وزیر صحت یا حکومت بلوچستان عوام کو, صحت کی سہولیات کی فراہمی سے اب مکمل طور پر دستبردار ہوچکی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں عوام کو صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، لیکن بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر آبادی کا بڑھتا ہوا بوجھ غریب عوام کی حق تلفی کا باعث بن رہا ہے۔ مکران کے دل شہر تربت کی بات کی جائے تو بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود یہاں پچھلے کئی سال میں صرف ٹیچنگ (سول) ہسپتال تربت کو تعمیر کرکے تین سے چار پلر کھڑے کیے گئے۔ ان تمام حالات کے باوجود بھی دھکے کھانے والے مریضوں کی نظریں اب بھی وزیر صحت اور حکومت پر ہیں کہ کب وہ عوام کی خدمت کرنے کا فریضہ سر انجام دیں گے اور اچھے ڈاکٹرز کی تعیناتی میں اپنا بہترین کردار ادا کرینگے۔
اس کے علاہ رہی بات غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کی جو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ ناقص حکمت عملی اور غیر سنجیدہ رویے کے باعث صحت کی صورتحال سنگین اور مختلف بیماریوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ حالیہ کچھ دنوں سے تربت ڈینگی وبا کی لپیٹ میں ہے، روزانہ کی بنیاد پر پندرہ سے بیس کیسز رپورٹ ہورہے ہیں اور کئی نوجوان زندگی جیسی نعمت سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایسے واقعات رونما ہونے کے باوجود پھر بھی وزیر صحت اقتدار میں رہ کر علاقے میں اسپرے کرانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی قسم کی بیماریاں کبھی ملیریا کبھی کینسر سے مررہے ہیں تو کبھی پولیو جیسی بیماری عمر بھر کی معذوری دے کر ان کی زندگی کو موت سے بھی بدتر بنارہی ہے۔ ڈاکٹرز، ادویات اور دیگر سہولیات سے محروم مریض کا سرکاری ہسپتالوں میں کوئی پرسانِ حال نہیں۔ وطن عزیز میں شعبہ صحت کی بدحالی کے ذمہ دار اس علاقے کے حکمران، بیوروکریسی، ہسپتالوں کی انتظامیہ، ڈاکٹرز و دیگر اسٹاف ہیں۔
ہمارے مکران کے حکمران شعبہ صحت کی بحالی میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا ایک اندازہ ہیلتھ بجٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ سالانہ بجٹ میں شعبہ صحت کے نام پر کروڑوں روپے کی لوٹ مار کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے عہدوں پر دوائی کی طرح اکسپائر ہو کر چلے جاتے ہیں، آخر میں وزیر صحت اور حکومتی نمائندگان سے درخواست ہے کہ اقتدار چلے جانے سے پہلے صحت کے شعبے پر توجہ دے کر عام آدمی کی رسائی بہتر علاج معالجے تک ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کی طرف سے سرکاری ہسپتالوں کو عوام کے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کیلئے اربوں روپے کے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں، ان فنڈز کو خوردبرد نہ کرکے اور غریب مریضوں کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے میں استعمال کیا جائے۔