بلوچستان میں خواتین کے لیے صحافت اب بھی مشکل

تحریر:میروائس مشوانی
بلوچستان کو ملک کا پسماندہ ترین صوبہ مانا جاتا ہے، جہاں نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کے لیے صحافت کرنا بھی مشکل تصور کیا جاتا ہے ۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ قدامت پسند اور قبائلی معاشرے میں خواتین نہ صرف بنیادی حقوق سے محروم ہیں بلکہ تعلیم جیسے زیور سے آراستہ ہونا بھی ایک دشوار گزار گھاٹی کی مانند ہے ۔ اکثر خواتین صحافت کو پیشہ کے طور پر اپنانیں کے بعد جلد ہی کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہیں یا فری لانسنگ کو مین اسٹریم میڈیا پر فوقیت دیتی ہیں۔ کوئٹہ شہر سے تعلق رکھنے والی بشریٰ قمر وہ واحد خاتون ہیں جو تمام تر مشکلات کے باوجود ایک نجی نیوز چینل میں بیورو چیف کی حثیت سے خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ یوں تو صوبہ میں خواتین کے لیے صحافت کے پیشے کو نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن تصور کیا جاتا جس کی وجہ سے بلوچستان میں صحافت سے وابستہ خواتین کے تعداد نہ ہونے کی برابر ہے ۔بشریٰ قمر بتاتی ہے کہ صحافت میرا شوق ہے ،صحافت کو پیشے کے طور پر اس لیے اپنایا تاکہ اپنے لوگوں کی مسائل اجاگر کرسکوں۔بشریٰ قمر کا کہنا تھا کہ نہ صرف صحافت بلکہ زندگی کی دیگر شعبوں میں بھی خواتین کو مختلف منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب میں فیلڈ میں جاتی ہوں تو نہ صرف رپورٹنگ کی دوران ہمیں منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر سوشل میڈیا پر ہمارے لیے غلط القاب استعمال کر کے ٹرولنگ کی جاتی ہے ۔ خواتین صحافی ہر دن نہیں ہر لمحہ منفی رویوں کا شکار ہوتی ہیں گلی کوچوں میں تنہا چلنا پھرنا ہمارے لیے محال ہوجاتا ہے۔ بشریٰ بتاتی ہیں کہ چار سال پہلے جب وہ آفس سے گھر جا رہی تھیں تو گلی میں موجود لڑکوں نے مجھے گالیاں دینے شروع کر دی اور ایک لڑکے نے مجھے ایک فاحشہ سے تشبیہ دیتے ہوئے مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی اور کہا گیا جو خواتین ٹی وی میں کام کرتی ہے وہ فاحشہ ہوتی ہیں ۔ بڑی مشکل سے میرے دفتر کے کیمرہ مین اور ڈرائیور میری جان بچانے میں کامیاب ہو گئے ۔ میں نے پولیس کو رپورٹ کیا اور ان کے خلاف قانونی کاروائی بھی کی گئی۔ مزید بتاتی ہے کہ انہیں ایک ایک سیا سی تنظیم کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی اور کسی تنظیم کے لیڈر کی جانب سے میرے ساتھ دھمکی آمیز رویہ رکھا گیا۔وہ بتاتی ہے ان رویوں کی وجہ سے بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی تعداد صرف پانچ رہ گئی ہے اکثر خواتین نے صحافت کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ نعیمہ زہری کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کی پسماندہ تحصیل زہری سے ہے ۔ وہ کہتی ہیں صحافت تو دور کی بات قدامت پسند اور ایک قبائلی معاشرے میں خواتین کے لیے تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کرنا بھی مشکل ہے نعیمہ بتاتی ہیں کہ میں نے صحافت کی راہ اس لیے منتخب کی کہ بلوچستان میں پسماندہ خواتین کی آواز بن سکوں کیونکہ بلوچستان میں اب تک خواتین کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے پسند کے مضمون میں داخلہ لے سکیں یا تعلیم حاصل کرسکیں۔ مزید بتاتی ہیں کہ ایک بلوچ گھرانے سے تعلق کی وجہ سے میرے لیے صحافت کا شعبہ اختیار کرنا بہت مشکل فیصلہ تھا لیکن چونکہ مجھے علم تھا کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے صحافی بلوچستان میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر نہیں کرسکتے جس کہ لیے مجھے میدان میں آنا پڑا تاکہ بلوچستان کی خواتین کی مسائل دنیا کے سامنے اجاگر کرسکوں۔وہ بتاتی ہے کہ یونیورسٹی میں پانچویں سمسٹر سے انہوں نے عملی صحافت کا آغاز کیا پاکستان کی مختلف ویب سائٹس کے لیے فری لانس کام کرنا شروع کیا کیونکہ کہ مین اسٹریم میڈیا میں تنخواہیں کم ہیں اور خواتین کے لیے مواقع نہ ہونے کی برا بر ہیں ۔سوشل میڈیا پر انہیں مختلف طریقے سے ہراساں کیا جاتا ہے بلکہ اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک قبائلی معاشرے میں خواتین کو میڈیا میں نہیں جانا چاہیے ۔مزید بتاتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر ان کے نام سے مختلف فیک اکاؤنٹس بنائے گئے جن کے ذریعے میری کردار کشی کی گئی نہ صرف میری زات اور خاندان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ میری زاتی زندگی پر بھی کئی بار غلیظ قسم کی الفاظ استعمال کئے جس سے ان کی ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات ہوئے۔ صحافتی خدمات سر انجام دیتے ہوئے انہیں ایک اسٹوری کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں اکثر خواتین میڈیا اینڈ جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود فیلڈ تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں آٹے میں نمک کے برابر جو خواتین آتی ہیں وہ بھی کم تنخواہوں کے باعث فری لانسنگ کو ترجیح دیتی ہیں ۔بلوچستان کے کنفلکٹ زون میں صحافیوں کو درپیش مسائل پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر ببرک نیاز بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ببرک نیاز بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں خواتین کی صحافت میں تعداد کم ہونے کی وجوہات میں قبائلی معاشرہ ثقافتی مسائل کے علاوہ میڈیا کے دفاتر میں خواتین کے لیے مناسب انتظام نہ ہونا بھی شامل ہے ۔ اکثر خواتین کو صحافت کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ان کے دفتر میں خواتین کے لیے کوئی الگ جگہ اور الگ واش روم بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ آسانی سے ہراسمنٹ کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ ببرک نیاز نے بتایا کہ 1987 سے 2018 تک جامعہ بلوچستان میں 200 کے قریب طالبات نے صحافت کی ڈگری حاصل کی ہے لیکن اب تک مجموعی طور ایک فی صد خواتین نے بھی صحافت کا پیشہ اختیار نہیں کیا یہ بات پریشان کن ہے اس کے باوجود اب بھی بی ایس پروگرام میں 30 کی قریب لڑکیاں شعبہ ابلاغ عامہ میں زیر تعلیم ہیں ۔۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون سپورٹس جرنلسٹ مہک شاہد بھی صحافتی خدمات سر انجام دیتے وقت مشکلات کا شکار رہتی ہےمہک بتاتی ہے ایک قبائلی معاشرے میں خواتین کے لیے صحافت جیسے شعبہ سے وابستہ رہنا کسی خطرہ سے کم نہیں مزید بتاتی ہے کہ انہوں نے سپورٹس جرنلزم کی طرف جانے کا فیصلہ اس لیے کی تاکہ آسانی سے اپنی صحافتی خدمات سر انجام دیتے رہے لیکن فیلڈ میں اس کی برعکس ہوا گزشتہ پی ایس ایل کی کوئٹہ شہر میں نمائشی میچ کے دوران مہک شاہد پر پانی کی بوتلیں پھینکا گیا اور انہیں برا بلا کہا گیا جس کا نوٹس وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو نے لے کر مہک شاہد کو بلوچستان کی روایتی شال پہنائے گئے تاکہ حوصلے افزائی ہو سکے ۔مہک شاہد بتاتی ہے کہ انہیں ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے نوکری کی آفر تو کیا گیا لیکن انتہائی کم معاوضہ پر جس کی وجہ سے فری لانسنگ کو ترجیح دی ۔مہک شاہد بتاتی ہے بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی تعداد میں کمی کی وجہ بیرو افسسز میں مناسب جگہ کا نہ ہونا اور لوگوں کی منفی رویے ہے جس کی وجہ سے خواتین کو سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جاتا ۔انہوں نے کہا حکومتی سطح پر خواتین کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے تاکہ خواتین کے لیے نہ صرف صحافت بلکہ دیگر شعبوں میں بھی کام کرنے کی آسانی ہو ۔وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاءاللہ لانگو بتاتے ہے کہ خواتین ہمارے معاشرے کا ایک ہم جز ہے، مزید بتاتے ہے کہ خواتین کا عزات و احترام کرانا ہمارے سیاسی قبائلی اور سماجی زمداری جس کی باعث بلوچستان حکومت نہ صرف خواتین صحافیوں بلکہ تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تحفظ کے لیے بلوچستان حکومت کسی بھی اقدامات سے دریغ نہیں کریں گے ۔انہوں نے کہ پہلے بھی بحثیت وزیر داخلہ میں نے بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی تحفظ کے حوالے سے کہا کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر قسم کی کوشش کریں گے بلکہ خواتین صحافیوں کی حوالے سے بل پیش کرنے کی یقین دہانی بھی کرونگاماہر نفسیات فوزیہ اسحاق ادرہ انڈویڈیل لینڈز سے وابستہ ہے جو کہ بلوچستان میں مرد اور خواتین صحافیوں کو صحافتی خدمات سر انجام دیتے ہوئے نفسیاتی مسائل سے دو چار افراد کے لیے فری کونسلنگ کرتی ہے ۔بتاتی ہے کہ بلوچستان میں رہنے والی خواتین اکثر گھریلوں تشدد اور افسز میں غیر اخلاقی رویوں اور معا شی بد حالی کی باعث مختلف قسم کی ڈپریشن اور انزئٹئ کی شکار ہے لیکن ان سب کی باوجود معاہر نفسیات سے کونسلنگ کی کوئی روجان نہیں فوزیہ بتاتی ہے مختلف ٹریننگ سیشنز میں میرے پاس خواتین کی بڑی تعداد میں کونسلنگ لینے کے لیے ہاتی ہے لیکن میں نے ٹرما سے گذرنے والے دو خواتین صحافیوں کی کونسلنگ کی جس میں سے ایک نے مکمل کونسلنگ سیشن مکمل کر لی اور دوسری نے نہ صرف کونسلنگ سیشنز مزید لی بلکہ صحافت سے بھی کنارہ کش ہو گئی ۔مزید بتاتی ہے کہ بلوچستان میں خواتین پر قبائلی رسم و رواج و کلچر کی وجہ سے شدید قسم کی پا ئبند یوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جن میں سے بہ مشکل ایک ہی فیصد خواتین نوکریوں کر روخ کرتی ہے تو پر ان کے لیے نہ صرف افسسز میں منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑا تی ہے بلکہ مختلف قسم کی ذہنی اذیتوں سے بھی گزار نا ان کی مقدار میں ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں