عورت کی بیٹی

تحریر: نعیمہ زہری
ارتقا اور تہذیب کے مراحل سے گزرتی ہوئی انسانیت اس بات سے کبھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئی کہ طاقت، زور اور قوت و کنٹرول مرد کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ یہی وجہ رہی ہے کہ ایسی من گھڑت سوچ کو پروان چڑھایا گیا جس سے مرد کو حاکم اور عورت کو مظلوم پیش کیا جاتا رہا ہے۔ مثلا ”مرد کے بچے ہو تو یہ کرو“، ”مرد کو درد نہیں ہوتا“ اور عورت کی جھولی میں ایسے الفاظ ڈال دیے گئے کہ جو صرف ظاہری صورت میں نہایت ہی خوبصورت اور پر کشش معلوم ہوتے ہیں جن کے نام پر ان کو دھوکہ دیکر انہیں دائمی طور پر پدر شاہی نظام کے زیر اثر لایا گیا اور زیر مرد پیش کیا جانے لگا۔ مثلا، صنف نازک اور نان و نفقہ کو مرد کی ذمہ داری مان کر عورت کو چادر و چار دیواری کی نظر کیا گیا لیکن آج اگر بلوچ معاشرے میں بلوچ عورتوں، بچیوں، ماﺅں، بہنوں، بیویوں اور دادیوں کی جرا¿ت و ہمت پر نظر دوڑائی جائے تو اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ اب کے برس وہ صنف نازک نہیں بلکہ سیسہ پلائی ہوئی چھٹانک ہیں جو ظلمت کے اندھیروں کو اپنے وجود اور جہد مسلسل کی روشنی سے چیر کر ایک پر نور مسقبل کو لانے کیلئے نہ صرف پر عزم ہیں بلکہ اس روشنی کی بقا کی ضامن بھی ہیں۔ بلوچ بیٹیاں تاریخ کے ان اوراق کے سیاہ صفحوں میں بھی دلیری اور پامردی کی نشانی تھیں جب دہلی پر رندوں نے بی بی بانڑی کی قیادت میں حملہ کیا تھا اور اس وقت بھی تاریخ ان کو ایک بہادر سپوت کے نام سے یاد کرتی تھی جب جنرل ڈائر جیسا خونخوار بھی گل بی بی کی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی ٹوپی اتار کر اس بہادر شہزادی کے سامنے سرنگوں کرتا ہے۔ تہذیب اور تمدن کے نام پر زنجیروں کی بات ہو تو سدو اور ماھگنج بلوچ تاریخ کو سنوارتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے نہ صرف بلوچ معاشرے میں برابری پر مبنی معاشرے کی عکاسی کی بلکہ عورت کو ایک قوت بنانے والی تحریک فیمینزم کے ایکٹیوسٹوں کو بھی ایک راہ دکھائی اور جب سیاسی بنیادوں پر استوار جدوجہد کی بات کریں تو ہرنی آنکھوں والی لمہ وطن بانک کریمہ کبھی اس بات سے غافل نہ تھی کہ انہیں بلوچ وطن کی بیٹیوں کو جگا کر جہد میں شامل کرنے کے سوا برابری اور انصاف لینا نا ممکن ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ ان سورماﺅں کو گلی گلی، کوچہ کوچہ اکیلے جا کر اپنے بلوچ تاریخ کا حوالہ دیتی تھی، انہیں بانڑی، انہیں ماھگنج کی دلیری اور انہیں بلوچ معیار اور زندگی کے اصول سمجھاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ سرزمین پر بلوچ ماﺅں اور بیٹیوں کو اس قدر بیدار کیا کہ آج بلوچ عورتوں کے اس جہد مسلسل کی کڑی کو آج بلوچ بیٹیاں بالخصوص نوجوان لیڈران لیڈ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ، ڈاکٹر صبیحہ، ڈاکٹر شلی اور سمی دین بلوچ شامل ہیں۔ انکی پامردی اور شیرزالی کو دیکھ کر اس بات سے کوئی ذی شعور منکر نہیں ہوسکتا کہ آج کے بعد بلوچ فخر سے اپنا سینا چوڑا کر کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”عورت کی بیٹی ہو“۔ کیونکہ عورت بلوچ سماج میں اکیسویں صدی میں جہد مسلسل، ظالم کو آنکھیں دکھانے والی وہ پری ذات بن چکی ہے کہ جس کے نام سے ظلمت کے بیوپاری اور وار بینیفشری خوفزدہ ہیں۔ آج کے بعد بلوچ کو کوئی اس بات کا طعنہ نہیں دے سکتا کہ بلوچ عورتیں مردوں کی پہنائی ہوئی سماجی زنجیروں کی نظر ہوکر رہنمائی کے حق سے محروم ہیں۔ کیونکہ بلوچ عورتیں آج برابری، انصاف اور امن کی تحریک کی روح رواں کی حیثیت رکھتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں