بلوچستان میں ایرانی تیل اسمگلنگ اسکینڈل، سرکاری و اہم شخصیات کے ملوث ہونیکا انکشاف

حب(نمائندہ انتخاب ) ایرانی تیل اسمگلنگ اسکینڈل سوشل میڈیا پر وائرل 44صفحات پر مشتمل طویل فہرست نے بلوچستان سمیت ملک کے مختلف فورسز بیورو کریٹس انتظامیہ افسران مختلف سیاسی لیڈروں انکے فرنٹ مین سہولت کار وں اور مختلف رجسٹرڈ پاکستانی تیل کمپنیوں کے پمپ مالکان میں ہلچل مچادی ہے مذکورہ فہرست میں بلوچستان کے متعدد سیاستدانوں اور انکے فرنٹ مینوں سمیت ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے سہولت کاروں کے نام بھی شامل ہیں اسی طرح ضلع حب اور لسبیلہ کے پولیس وسول افسران بھی شامل ہیں اور جن اداروں سے منسوب کر کے مذکورہ فہرست وائرل کی گئی ہے اسکے بعد ذرائع بتاتے ہیں کہ سرکاری افسران پر بار بار سکتے کے دورے پڑ رہے ہیں اور ا±نکی طرف سے اپنی پارسائی کیلئے سوشل میڈیا پر ایرانی تیل کی اسمگلنگ پر سختی کرنے کے حوالے سے بیانات بھی سامنے آتے جارہے ہیں لیکن انکے بیانات ا±نکی آمدن سے کئی گنازائد اثاثے اور بلوچستان پولیس کی تنخواہ سندھ اور پنجاب پولیس کے برابر کرنے کے مطالبات کے باوجود لگژری لائف اسٹائل پر پردہ ڈالنے کیلئے ناکافی ہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر مذکورہ طویل فہرست حقائق پر مبنی ہے تب بھی اس میں کافی کمی اور خامیاں ہیں اور یہ ممکن ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے جن اداروں کے افسران واہلکاروں کا مذکورہ فہرست میں ذکر اس لیئے نہیں ہے کہ ا±ن اداروں کے افسران واہلکاروں کے احتساب کا طریقہ کار مختلف ہو تاہم ضلع لسبیلہ اور حب کے حوالے سے جن پولیس اور لیویز اور کسٹم اہلکاروں کا ذکر موجود ہے وہ بھی ناکافی ہے ضلع لسبیلہ میں نمی پولیس چیک پوسٹ سے لیکر بیلہ کانکی لاکھڑا تا اوتھل وندر تک پولیس لیویز اور کسٹم سمیت دیگر مختلف فورسز سمیت نجی چیک پوسٹوںبعدازاں وندر سسی پنوں تا ساکران سے حب اور سندھ بلوچستان سنگم پر قائم کراچی پولیس اور دیگر فورسز کی چیک پوسٹوں پر تعینات افسران واہلکاران کے اثاثوں میں دن دگنی رات چگنا اضافہ بالخصوص وندر سسی پنوں تا ساکران تک اسمگلنگ کے بدنام زمانہ روٹ اور بند مراد پل پر کسٹم پوسٹ کے کسی اہلکار کا ذکر نہیں کوئٹہ وحدت کالونی کے رہائشی ضلع حب میں تعینات سسی پنوں عباسی چوکی انچارج پولیس آفیسر کے مختصر عرصہ میں اثاثوں میں اضافہ پر بھی انہیں گرفت میں لانے کیلئے کوئی تیار نہیں نظر آتا اور سب سے بڑھ کر ضلع حب اور ضلع لسبیلہ کے صرف تھانوں کے بعض SHO,sاور چند اہلکاروں اور DPOآفس اوتھل کے ایک سول آفیسر کا نام شامل ہے لیکن یہ تھانیدار اور پولیس اہلکار جو کہ بیٹر کہلاتے ہیں یہ اوپر کمائی میں چھوٹی موٹی چوری کر کے کروڑ پتی اور کروڑوں روپے کے اثاثوں کے مالک بنے ہیں لیکن جو اصل رقم جن بڑے افسران کی خدمت میں پیش کی جاتی رہی ہے اور ماضی میں ضلع لسبیلہ کے متعدد ایس پی رینک کے افسران اس حوالے سے محکماجاتی انکوائریاں بھگت چکے ہیں ان بالا افسران تک تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور اس وقت ضلع حب پولیس میں ایک بالا آفیسر مبینہ مال کمانے کیلئے جو معاملات چلا رہے ہیں اس حوالے سے بھی احتساب کے عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں