گوادر میں باپ کی دھڑا بندی،فائدہ کس بیٹے کو ہوگا

تحریر ساجدنور
بلوچستان میں برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی جیسے مرکزی سطع پر گروپ بندی اور شخصیت پرستی کا شکار ہے بالکل اب اسی طرح اب یہ اثرات آہستہ آہستہ مختلف اضلاع میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں اور اس سلسلے میں ضلع گوادر اِن دنوں سرفہرست ہے۔
گزشتہ الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی نے سابق ایم این اے میر یعقوب بزنجو کو ٹکٹ دیا تمام لوگوں کا خیال یہی تھا کہ میر یعقوب بزنجو بھاری ووٹوں سے جیت کر صوبائی اسمبلی میں ضلع گوادر کی نمائندگی کرینگے کیونکہ باپ جماعت کو اقتدار میں لانے کے لیے مقتدرہ بھی کوششوں میں لگی ہوئی تھی۔
لیکن ضلع گوادر کی حد تک کھیل میں اچانک تبدیلی لائی گئی جہاں میر یعقوب بزنجو کو بڑی مارجن سے جیتنا تھا وہاں مدمقابل امیداور میر حمل کلمتی اکتیس ہزار سے زائد ووٹ لیکر جیت گئے جبکہ میر یعقوب بزنجو سترہ ہزار کے قریب ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔
میریعقوب بزنجو نے اپنے مدمقابل امیدوار کے جیت کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنچ کردیا اُن کے مطابق بہت سے علاقوں میں بوگس اور جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے،کیس ابھی بھی عدالت میں چل رہا ہے جس پر فیصلہ ابھی آنا ہے۔
الیکشن کے بعد میر یعقوب بزنجو غالبا اپنی کسی بیماری کے باعث سیاسی میدان سے نکل گئے اور علاج کے لیے بیرون ملک چلے گئے،
اِس دوران اُس کے مخالفین میدان میں اُتر ہوگئے اور اُسے ہارا ہوا مفرور شخص قرار دینے لگے،مخالفین اگر یہ سب کررہے تھے تو یہ اُنکی سیاست تھی لیکن اِس بیچ بلوچستان عوامی پارٹی کے کچھ سرکردہ شخصیات بھی میر یعقوب بزنجو کو ڈی مورالائز کرنے کے لیے باپ کے ورکروں میں یہ باتیں پھیلاتے رہے کہ میر یعقوب بزنجو باپ کے کارکنان کو بے یارومددگار چھوڈ کر چلے گئے ہیں۔
وزیراعلی بلوچستان کا منصب سھنبالنے کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی قائد جام کمال خان جب دوسری بار پسنی آئے (الیکشن سے قبل وہ پسنی کا دورہ کرچکیتھے) پھر گوادر چلے گئے دوسرے روز اُسے گوادر کے سابقہ اور موجودہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کرنا تھا اور اِس پریس کانفرنس میں میں بھی موجود تھا۔
پریس کانفرنس سے قبل پی سی ہوٹل گوادر میں ضلع گوادر کی تین نامور مذہبی شخصیات بھی موجود تھے اور اُن کے پاس ایک سابق نگران صوبائی وزیر بھی بیٹھا ہوا تھا اور وہاں بحث یہ چل رہی تھی کہ ضلع گوادر کی نمائندگی کس کو دی جائے اور وہ کونسی شخصیت ہے جسے ضلع گوادر کی تمام تر زمہ داریاں سونپ دی جائیں جو آگے کوئٹہ میں گوادر کے حوالے سے کام کرے۔
صوفے پر بُراجمان سابق نگراں صوبائی وزیر نے اِن شخصیات سے کہا کہ اگر آپ لوگ چاہیں تو میرجام کمال خان یہ زمہ داری اُسے سونپ سکتا ہے اور اِس دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وزیراعلی بلوچستان میرجام کمال،میر یعقوب بزنجو سے زیادہ ٹچ میں تھے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت کی جانب سے جب پہلا بجٹ پیش ہوا اور اُس میں ضلع گوادر کے بھی بہت سے ترقیاتی اسکیم شامل کیے گئے تھے اب یہ جو سرد جنگ چل رہی ہے اِس کی سب سے بڑی وجہ اِنہی کاموں کے کریڈٹ لینے کی بیماری ہے۔
مجھے یاد ہے جب مکران کوسٹل ہائی وے پر یوفون موبائل سروس شروع ہوئی تو کسی شخص نے اِس کا سہرا ایک نگران صوبائی وزیر کے گَلے پہنا دیا کہ یہ سب اُنہوں نے کروائے ہیں حالانکہ ٹیلی کمیونیکیشن کا سارا نظام وفاقی حکومت کے پاس ہے اور وہ کسی صوبہ کے وزیراعلی کی بات تک نہیں سُنتے،اِس کی حالیہ مثال بلوچستان کے آن لائن کلاسز کی ہے لیکن چونکہ کریڈٹ لینے کی بیماری لگ چکی ہے اب یہ بیماری کسی میڈیکل میڈیسن سے جانے والا نہیں ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی میں دوسری محاز کی شروعات حالیہ بجٹ اجلاس اور پی ایس ڈی پی پر شروع ہوا ہے ایک سابق نگراں صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ ضلع گوادر کے جتنے بھی ترقیاتی اسکیمات منظور ہوئے ہیں اُن میں کلیدی کردار اُسی کا ہے جس پر بلوچستان عوامی پارٹی کے بہت سے کارکنان اپنی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کارکنان کا کہنا ہے کہ پورے ضلع گوادر کے لیے اربوں روپے کے اسکیمات منظور کیے گئے ہیں اگر یہ تمام اسکیمات وزیراعلی بلوچستان نے صرف ایک شخص کے کہنے پر منظور کرائے ہیں تو پھر ضلع گوادر میں پارٹی کا ضلع آرگنائزر اور ڈپٹی آرگنائزر رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟؟
پارٹی کے اکثریتی کارکنان ایک سابق نگراں صوبائی وزیر سے نالاں ہیں اور یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ اُس کا جھکاؤ مخالف پارٹی کی جانب ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے مختلف ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں میں اُس پارٹی کے لوگوں کو بھی شامل کرلیا ہے اُن کا کہنا ہے کہ ڈیم سے لیکر فٹبال گراؤنڈ کی تعمیرات تک ہر جگہ 10 فرسنٹ وصول کیا جارہا ہے جوکہ پارٹی کے لیے سُبکی کا باعث بن رہا ہے۔
جبکہ دوسری جانب سابق نگران وزیر اِن باتوں کی تردید کرتا چلا آرہا ہے اُس کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اُسکی قابلیت اور محنت سے خوش نہیں ہیں اور اُسکے خلاف پروپگینڈہ کررہے ہیں۔
اور ابھی کچھ دنوں سے اخباری اشتہارات کی ایک جنگ شروع ہوچکی ہے اور اشتہارات کے کیے بے دریغ پیسے استعمال کیے جارہے ہی اور اِس جنگ میں گویا کہ کچھ فائدہ ہم اخباری نمائندگان کو مل رہا ہے لیکن اِس سے اب یہ بات صاف عیاں ہوچکی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی ضلع گوادر میں انتشار کا شکار ہوچکا ہے۔
کارکنان کے مطابق پارٹی قائد اور وزیراعلی بلوچستان کچھ ایکشن لینے کے بجائے خاموش ہے اور کچھ اِس خاموشی کو سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی سے وابسطہ کررہے ہیں اُنکے مطابق سابق نگراں صوبائی وزیر کو اسلام آباد سے کسی کا خاص آشیرباد حاصل ہے،
آشیرباد والی بات سنی سنائی ہے اُس کی صحت پر مجھے بھی تحفظات ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اِس انتشار اور دھڑابندی کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟؟
اُن کو جو آئے روز جیے جام جیے بلوچستان عوامی پارٹی کہہ رہے ہیں یا اُنکو جو اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت کے ترقیاتی کاموں میں بطور ٹھیکہ دار شامل کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں