میر غوث بخش بزنجو مدبر بااصول سیاسی رہمنا

انور رخشانی
عموماً جب آپ کسی ایسے موضوع پر لکھ رہے ہوں جس کا تعلق موجودہ صورتحال سے ہو تو لکھنے میں آسانی ہوتی ہے کیونکہ اس موضوع پر بہت سا مواد آپ کے نظروں سے گزر رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ تاریخ پر لکھتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو بہت سارے مطالعے سے گزرنا پڑتا ہے اور اگر تاریخ کسی ایسے شخصیت کے بارے میں ہو جس کو پڑھنے اور اس پر لکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہو تو اس پر لکھنے میں احتیاط برتنا لازم بن جاتا ہے۔ یقیناً میرے جیسے عام سیاسی ورکر کا بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے بارے میں لکھنے کی ہمت کرنا بھی مشکل فیصلہ ہے۔
بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی سوانح حیات جسے بابائے بلوچستان کے سیاسی شاگرد انتہائی نرم لہجہ مگر مدبرانہ ، اور دانشورانہ سیاسی بصیرت کے مالک میر طاہر بزنجو نے ، بابائے بلوچستان، کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد کوشش کی کہ بابائے میر غوث بخش بزنجو کے بار میں لکھنے کی جسارت کرسکوں۔لیکن اگر مجھ سے کوئی غلطی صادر ہوجائے تو تاریخ سے وابستہ افراد،سیاسی کارکن اور قلم کاروں سے پیشگی معذرت کا طلب گار ہوں۔
1917 میں میر سفر خان بزنجو کے گھر جھاؤ آواران میں پیدا ہونے والے میر غوث بخش بزنجو والد کے جلد وفات کے باعث کم عمری میں ہی آزمائشوں اور مشکلوں سے گزرے باوجود اس کے کہ میر صاحب ایک بڑے قبائلی گھرانہ کے چشم و چراغ تھے ابتدائی تعلیم کے لئے پہلے سنڈیمن اسکول کوئٹہ اور 1935 کے زلزلے کے باعث کراچی منتقل ہونا پڑا یاد رہے کہ دوران طالب علمی میر صاحب کو فٹبال سے بے پناہ لگاؤ تھا جس کے باعث میر صاحب مختلف تعلیمی اداروں کی جانب سے فٹبال کھلتے رہے جن میں علیگڑھ یونیورسٹی سرفہرست ہے۔
جلد ہی فٹبال کو ایک طرف کرکے میر صاحب سیاسی سفر پر گامزن ہوئے اور 1937 میں میر صاحب کیمونسٹ پارٹی سے اپنے سیاسی سفرکا آغاز کرلیا۔ جب 1939 میں علی گڑھ سے دوبارہ کراچی آئے تو کراچی کے بلوچوں کی نمائندگی کرنے قلات نیشنل پارٹی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے مستونگ پہنچے۔
قلات پولیٹکل ایجنٹ ، خان قلات اور قبائلی سرداران جو بلوچستان کے سیاسی قیادت کو اپنے لئے خطرہ سمجتھے تھے۔ خان قلات اور پولیٹکل ایجنٹ نے قبائل سرداروں اور قلات نیشنل پارٹی کے سیاسی قیادت کے درمیان ٹکراؤ کا بہانہ بنا کر قلات نیشنل پارٹی کے صدر ملک عبدالرحیم خواجہ خیل سمت اکثر ارکان کو ریاست بدر کردیا اور احتجاج کرنے پر میر صاحب کو قلات لاکر نظر بند کردیا۔ یوں میر صاحب کا سیاسی سفر بھی مشکالات ہی سے شروع ہوا۔ کیونکہ اس نظر بندی کے بعد میر صاحب کی جائیداد ضبط کرلی گئی اور پولیٹکل ایجنٹ اور ریاست کی طرف سے جو وظیفہ ملتا تھا وہ بھی بند ہوگیا۔ 1940 میں میر صاحب کو بھی ریاست بدر کیا گیا جہاں میر صاحب اپنے سیاسی دوستوں سے جا ملے ۔ یاد رہے کہ اس وقت قلات ہندوستانی ریاست کا حصہ نہیں تھی لہذا قلات سے ریاست بدر ہونے والی سیاسی قیادت ہندوستان میں موجود ان سیاسی جماعتوں سے قربتیں بڑھانے کے لئے آگے بڑھی جو مشترکہ دشمن برطانوی سامراج کے خلاف صفہ آرا تھے۔
11 اگست 1947 کو بلوچستان 14 اور 15 اگست بالترتیب پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوئے۔ ریاست بلوچستان کے آزادی کے بعد انتخابات کے ذریعہ دو ایوان دارالعوام اور دارالامرا منتخب ہوئے میر صاحب ریاست قلات میں دارالعوام کے رکن منتخب ہوئے۔الحاق پاکستان کے لئے دو دفعہ دونوں ایوانوں کے اجلاس بلائے گئے لیکن دونوں دفعہ الحاق نامہ مسترد ہوا میر صاحب ان دونوں اجلاسوں میں دارالعوام کا حصہ تھے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت کی تھی۔ بعد میں قلات ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوگیا جو ایک الگ موضوع ہے۔
پاکستان سے الحاق کے بعد قلات نیشنل پارٹی پر پورے ملک میں پابندی عائد کردی گئی۔پاکستان سے الحاق اور قلات نیشنل پارٹی پر پابندی کو کافی عرصہ گزر چکا تھا پابندی سے چھٹکارے اور سیاسی عمل کو آگے لے جانے کے لئے قلات نیشنل پارٹی کے تمام ارکان پارٹی مشاورت سے مسلم لیگ میں شامل ہوگئے لیکن بلوچستان میں لیگ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔
کچھ عرصہ تک بلوچستان میں سیاسی عمل مکمل روکا رہا 1955 میں شہزادہ عبدالکریم کی رہائی کے بعد میر غوث بخش بزنجو ،میر گل خان نصیر اور دیگرسنیئر دوست سے مشاورت کے بعد، استمان گل ،کے نام سے نئی پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ جلد ہی پاکستان کے قوم پرست ، ترقی پسند بائیں بازو کی جماعتیں ایک پلٹ فارم پر منظم ہونے لگیں۔جی ایم سید، خان عبدالغفار ،میاں افتخار، میر غوث بخش بزنجو، خان عبدالصمد خان ،میر گل خان نصیر، عبدالرحیم و دیگر نے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ باہمی مشاورت سے خان عبدالغفار خان پارٹی سربراہ بن گئے۔ پہلے پارٹی کا نام پاکستان نیشنل پارٹی اور بعد میں نئے دوستوں کے آنے کی وجہ سے پارٹی کا نام تبدیل کرکے نیشنل عوامی پارٹی رکھ دیا گیا۔غیر جمہوری ، غیر سیاسی قوتوں کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے میر صاحب سیاسی دوستوں سمت اکثر قلی کمپ ، جیل اورجلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے صدر ایوب کے دور میں حیدر آباد جیل سمت مختلف عقوبت خانوں میں سخت اور مشکل حالات کا جوان مردی مقابلہ کیا۔
1970 میں ون یونٹ کے خاتمے اور انتخابات کے بعد جب میر صاحب گورنر اور سردار عطاءاللہ مینگل وزیر اعلی بلوچستان بنے تو بلوچستان اور بلوچ قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اس وقت کی پہلی میڈیکل کالج اور یونیورسٹی کی بنیاد ڈال کر بلوچ قوم کو پیغام دیا کہ قومیں بندوق سے نہیں بلکہ تعلیم کی شمیں روشن کرنے سے ترقی کرتی ہیں۔
ان کا ایک قول بلوچ قوم آج بھی فخر سے یاد کرتی ہے کہ جب میر صاحب یونیورسٹی کے پروفیسر جو میر صاحب سے ملنے ان پاس جانے والے تھے لیکن اس پہلے میر صاحب خود اس کو لینے پہنچ گئے اور پروفیسر کے منع کرنے پر کہا کہ میں ختم ہونے والا گورنر ہوں اور آپ ہمیشہ رہنے والے استاد ہیں۔
جلد ہی ذوالفقار علی بھٹو نے (NAP) کی حکومت پر ملک دشمنی کے الزامات لگا کر پہلے میر صاحب کو گورنر کے عہدے سے ہٹا کر نواب اکبر خان بگٹی کو گورنر بنایا پھر سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کا بھی خاتمہ کرلیا یوں نیشنل عوامی پارٹی کی پہلی حکومت چند ماہ کے بعد ہی ختم ہوگئی۔ بعد میں بغاوت اور ملک دشمنی کے الزامات لگا کر میر غوث بخش بزنجو، نواب نواب خیر بخش مری ،سردار عطاءاللہ مینگل سمت بلوچستان سے (NAP) کے تقریبا سینئر قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیاگیا گرفتاریوں کا نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوا میر صاحب ساتھوں سمت پانچ سال 1973 سے 1978 تک جیل کی کال کوٹری میں رہے۔ جب آپ رہا ہوئے تو پہلے سے ہی جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔
جب میر صاحب اور ان کے قریبی رفقاء قید و بند سے رہا ہوئے تو ولی خان سے اختلافات کی وجہ سے الگ ہوکر سردار عطاء اللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری و دیگر ہم خیال ساتھوں سے مل کر نئی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈال دی۔ مارشل لاء اور ساتھیوں کے جلاوطنی کے باوجود میر صاحب ملک میں رہ کر جمہوری اداروں اور آئین کی بلادستی کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور اس جدوجہد کے نتیجے میں قلی کمپوں اور جیلوں میں تکالیف اٹھائیں میر صاحب اپنے 70 سالہ زندگی کے 25 سال زنداں میں رہے 1988 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے الکیشن ہارے یقینا اس ہار میں طویل عرصہ ساتھ رہنے والے میر صاحب کے اپنے قریبی ساتھیوں کے علاوہ فرسودہ قبائلی سوچ و انا پرستی کا کردار زیادہ تھا۔
میر صاحب کینسر جسے موذی مرض کا شکار ہوکر 11 اگست 1989 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے میر صاحب کی رحلت کے بعد سامراجی اور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف طویل جفا کش جدوجہد کا ایک اہم باب بند ہوگیا۔ میر صاحب اپنی سیاسی بصیرت اور مستقل مزاجی کی بدولت پاکستان سمت برصغیر کی سیاست میں اہم مقام رکھتے تھے۔
میر صاحب کو 1973 کی متفقہ آئین کے موجدین میں شمار کیا جاتا ہے۔میر صاحب ساری زندگی وطن اور اہل وطن کی بہتری کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔وہ عوامی طاقت پر یقین رکھتے تھے اور عوام کو ہی سیاست کا سر چشمہ سمجھتے تھے ظالم کے خلاف اور مظلوم کی آواز سمجھے جانے والے میر صاحب لسانی اور تشدد کے سیاست کے خلاف تھے میر صاحب کو فکری و وسیع النظری سیاست میں مستقل مزاجی اور عوام کے ساتھ بے پناہ محبت کی بدولت آج بھی بابائے بلوچستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
میر صاحب اکثر کہا کرتے کہ مجھے ، شیر اور قائد ، جسے القابات سے نہ پکاریں اور نہ ہی مجھے قائد جمہوریت پکارہ کریں میں عام انسان اور آپ لوگوں کا ساتھی ہوں۔
میر صاحب اپنے سیاست کا وارث اپنے خاندان کے بجائے نوجوانوں کو سمجھتے تھے۔ میر صاحب کی زندگی آج بھی وطن اور اہل وطن سے محبت کرنے والوں کے لئے مشعل رہ ہے۔ میر صاحب خود تو اپنے آخری آرام گاہ میں ہیں لیکن ان کی سیاسی ، فکری ، نظریاتی جدوجہد آج بھی ہر اس نوجوان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے جس نے میر صاحب کی سیاسی جدوجہد کے فلسفے پر عمل پیرا ہوکر بابائے بلوچستان کے سیاسی و نظریاتی سیاست کے پرچم کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں