افغانستان میں محفوظ دہشتگرد تنظیمیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دراندازی کر رہی ہیں، عالمی رپورٹس
اسلام آباد ( آن لائن) دوحہ امن معاہدے کے باوجود طالبان کے زیرِ اقتدار افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔ عالمی رپورٹس اور سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغان سرزمین سے پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے خلاف منظم دہشت گرد کارروائیاں جاری ہیں، جس سے خطے کے امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ معاہدہ کے تحت افغان طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی اور سرحد پار دراندازی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، تاہم عملی طور پر یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں، جبکہ طالبان حکومت اور القاعدہ کے تعلقات نہ صرف برقرار ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ ایمن الظواہری کی کابل میں ہلاکت نے ثابت کر دیا کہ القاعدہ اب بھی افغانستان میں سرگرم ہے۔ اس کے علاوہ، دہشت گرد تنظیمیں زابل، وردک، قندھار، پکتیا اور ہلمند کے راستوں سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دراندازی کر رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فتنہ الخوارج کی قیادت کو افغان سرزمین پر مکمل پناہ، وسائل اور مالی معاونت حاصل ہے، جبکہ طالبان حکومت ہر ماہ اس گروہ کے سربراہ نور ولی محسود کو 50 ہزار 500 ڈالر فراہم کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، محسود کے قبضے میں امریکی افواج کے چھوڑے گئے جدید ہتھیار بھی موجود ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے، جبکہ حالیہ جعفر ایکسپریس دھماکے اور ژوب کنٹونمنٹ حملوں میں افغانستان سے منسلک شواہد سامنے آئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے دوحہ معاہدے کی روح پامال کی جاچکی ہے، اور عالمی برادری کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ اس فریم ورک کے تحت طالبان حکومت پر سخت سفارتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرے تاکہ افغانستان کو دوبارہ عالمی دہشت گردی کا گڑھ بننے سے روکا جا سکے۔


