بلوچستان کا سیاسی منظر نامہ
تحریر: عنایت الرحمن
بلوچستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک بار پھر بے چینی اور بے اطمینانی کے بادل نمودار ہورہے ہیں۔ سیاسی افق پر ابھرنے والی یہ دھند آلود لکیریں محض ہولوگرافک انعکاس ہیں یا ان میں کوئی ٹھوس حقیقت بھی پوشیدہ ہے؟ اس کا فیصلہ تو وہی لوگ بہتر کرسکتے ہیں جو سیاسی مصلحتوں کے رمز شناس ہیں۔ مگر ہم جیسے اہلِ خبر کے لیے یہ اطلاعات ہر بار حیرت میں ڈال دیتی ہیں کہ ”وزیر اعلیٰ بلوچستان کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے“۔
وجوہات جاننے کی کوشش ہو تو امن و امان اور کرپشن کے الزامات کو مرکزی نکتہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ وزیر اعلیٰ پر تو بہرحال اقبال کے اسی شعر کے مصداق ساری زمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں اور خود کو کنارا کر لیا گیا ہے: کہ
اگر کجرو ہیں انجم، آسمان تیرا ہے یا میرا
مجھے کیا فکرِ جہاں، جہاں تیرا ہے یا میرا
دیکھا جائے تو موجودہ صوبائی حکومت کو ملک کی دو بڑی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے، لیکن اس حمایت کے باوجود انہی جماعتوں کے چند بااثر اراکین کی جانب سے وقتاً فوقتاً گلے شکوے سامنے آتے رہتے ہیں جن سے سیاسی فضا میں تشویش بڑھتی ہے۔ بادی النظر میں یہ ساری صورتحال دراصل اس بنیادی سوال کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کیا محض وزیر اعلیٰ کی تبدیلی سے وہ مسائل حل ہوجائیں گے جن کا مجموعی تعلق پورے نظام سے ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر وہ کون سی غیر معمولی تبدیلی لائی جائے گی جو گزشتہ کئی حکومتیں نہ لاسکیں؟
کرپشن کے الزامات تو تقریباً ہر دورِ حکومت کا حصہ رہے ہیں اور امن و امان کی خراب صورتحال بھی کسی ایک حکومت کا نہیں بلکہ ایک مجموعی تاریخی مسئلہ ہے۔ اس کے باوجود موجودہ صوبائی حکومت نے ان بنیادی مشکلات کے تدارک کے لیے متعدد عملی اقدامات کیے ہیں۔ لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنا، نوجوانوں کے لیے بیرون ملک تعلیم و روزگار کے مواقع پیدا کرنا، آسان قرضہ جات، اسکالرشپس اور ہنر افزائی پروگراموں کا اجراءاسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اسی طرح منشیات کے خاتمے، غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ کی روک تھام، سرمایہ کاری کے فروغ اور ادارہ جاتی بہتری کے لیے بھی متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف بڑی جمہوری جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا آسان کام نہیں۔ اس پر مزید بوجھ اپوزیشن اور چھوٹی جماعتوں کے اپنے سیاسی خدشات ہیں۔ دوسری طرف صوبے کی معاشی، تعلیمی اور سیاسی بحالی ایک وسیع البنیاد اور اجتماعی کوشش کی متقاضی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے پہلے سیاسی انتظامی تجربے میں ایک بیک وقت چار محاذوں کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس کا سامنا بھی غیر معمولی بردباری سے کررہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کی مرکزی قیادت سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔
بلوچستان جیسے پیچیدہ سیاسی ماحول میں سب کو راضی رکھنا ناممکن تو نہیں مگر بہرطور دشوار ضرور ہے۔ ڈھائی ڈھائی سال کے سیاسی فارمولے کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے لیکن اصل سوال مدت کا نہیں بلکہ اس بات کا ہے کہ صوبے اور عوام کے لیے کیا عملی کام کیا جارہا ہے۔ وہ کون سے اقدامات ہیں جن کے اثرات دور رس ہوں، جو آنے والی نسلوں تک ثمر آور رہیں؟ بلوچستان کے حالات آج وہی تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی رہنما باہمی مسابقت سے زیادہ تعاون کو فوقیت دیں۔
گورنر بلوچستان نے بھی درست کہا ہے کہ ”محدود وسائل میں توازن قائم کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے“۔ اور یہ توازن اس وقت ہی قائم ہوسکتا ہے جب حکمرانی شفاف ہو، پالیسی سازی اجتماعی ہو، مفاہمت کو فوقیت دی جائے اور عوامی مفادات کو سیاسی ترجیح قرار دیا جائے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اراکین اسمبلی کی تجاویز اور آراءصوبائی پالیسیوں کی بہتری کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
بہتر طرز حکمرانی کا کلیہ سادہ مگر مشکل ہے—عوامی مسائل کا بروقت حل، شفافیت، موثر سروس ڈیلیوری اور سیاسی ہم آہنگی۔ بلوچستان کے سیاسی رہنماو¿ں میں عوام کے لیے دردِ دل موجود ہے، پھر کیوں نہ اختلافات کو محض تنقید کے بجائے عملی تجاویز اور عملی اقدامات کی شکل دی جائے؟ اختلاف رائے تو جمہوریت کا حسن ہے، لیکن اختلاف اس وقت فائدہ دیتا ہے جب وہ اصلاح کے دروازے کھولے نہ کہ بے چینی کے۔
بلوچستان کے عوام کے حقیقی مسائل آج بھی وہی ہیں—امن و امان، روزگار، تعلیم، صحت، روٹی، کپڑا اور مکان۔ اگر ان مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں ہوں تو ترقی کی رفتار نہ صرف بڑھے گی بلکہ دیرپا بھی ہوگی۔ کارواں کی قیادت کس کے پاس ہے یہ سوال ثانوی ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کارواں رکا نہیں ہونا چاہیے۔
جہاں تک وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کا تعلق ہے، انہیں اختلاف رائے اور اعتراضات کی وجوہات کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے پیش قدمی کرنی چاہیے۔ شاعر نے درست کہا ہے:
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لیے
نگاہ کی بلندی اور جاں کی پرسوزی تو ان کے طرزِ عمل میں موجود ہے، اب سخن کی دل نوازی اور مفاہمت کے دروازے کھلے رکھنا ہی اس سیاسی کارواں کو منزل تک پہنچا سکتا ہے۔


