دہشتگردوں کی بڑھتی سرگرمیاں، تیراہ نیٹ ورک کے ذریعے پشاور پر دہشتگردانہ حملے تیز ہوگئے، پولیس حکام

پشاور (آن لائن) وادی تیراہ میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ایک بار پھر پشاور کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن رہی ہیں، جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکام شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ ذرائع کے مطابق، دہشتگردوں کی جانب سے تیراہ کے نیٹ ورکس کے ذریعے پشاور پر دہشت گردانہ حملے تیز ہو گئے ہیں، جس سے صوبے میں سیکورٹی کی صورت حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔تیراہ اور پشاور کا فاصلہ صرف 70 کلومیٹر ہے اور وہاں تک پہنچنے میں صرف دو گھنٹے کا وقت درکار ہے، جو دہشت گردوں کے لیے پشاور تک رسائی کا ایک اہم راستہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 24 نومبر کو پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری ہیڈکوارٹر پر حملے میں دہشتگردوں نے تیراہ کے راستے کا ہی انتخاب کیا۔ اس کے علاوہ، 25 نومبر کو حسن خیل، پشاور میں گیس پائپ لائن کو آئی ای ڈی سے تباہ کرنے والے دہشت گرد بھی تیراہ سے آئے تھے۔ ماضی میں تیراہ دہشتگردوں کی ایک اہم پناہ گاہ رہی ہے، جہاں حکیم اللہ محسود کی قیادت میں طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھی تھیں۔ 2014 میں آرمی پبلک اسکول (APS) پشاور پر ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی بھی تیراہ میں کی گئی تھی۔ حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں ملوث افغان شہریوں کے روابط بھی تیراہ میں قائم نیٹ ورکس سے جڑے ہوئے ہیں، جو اس علاقے کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تیراہ میں منشیات کی تجارت سے جڑے مفادات بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں جو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ منشیات کی تجارت اور دہشت گردی کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے، جو تیراہ میں بڑھتے ہوئے دہشت گردانہ نیٹ ورک کی ایک اور علامت ہے۔ اگر فوری طور پر تیراہ میں دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ اور ان کے نیٹ ورک کو شکست نہ دی گئی تو پشاور میں دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جو خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بن سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں