"عورتوں کے ساتھ درندگی”

تحریر: بلاول ساجدی
دین اسلام میں عورت ذات کی حقوق کے بارے میں بہت زور دیا گیا ہے۔ دین اسلام سے پہلے کفار لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کیا کرتے تھے۔ مگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کفار کو دین کی دعوت دی اور ساتھ میں لڑکی کی پیدائش پر اسکو زندہ دفن کرنے سے بھی روکنے کی پوری کوشش کی۔
کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو اسکو بیٹی کی نعمت سے نوازتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کسی شخص کو تین بیٹیاں عطا فرمائے اور وہ شخص انکی اچھی تعلیم اور تربیت کرنے میں اور تمام جائز خواہشات پوری کرنے میں کامیاب ہوا تو گویا اس شخص نے جنت پالیا۔
مگر ہم ریاست مدینہ میں ہر روز عورتوں کے ساتھ جنسی اوس کی وجہ سے بے گناہ عورتوں کی ریپ، بے گناہ کم عمر بچیوں کی ریپ، ٹرانسجینڑر کی ریپ اور یہاں تک کے لڑکوں کی ریپ کی باتیں ہمیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جس سے زندہ ظمیر انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔
ہم اس اندھے معاشرے میں رہتے ہیں۔ جہاں مجرم کھلے عام پر سکون زندگی گزارنے میں لگا ہوا ہوتا ہے۔ اور اسکے ظلم اور زیادتیوں کا شکار انسان انصاف کے لیے دربدر ٹھوکریں کھا رہا ہوتا ہے۔
اب بتاتا چلوں کے عورت ذات ہر روپ میں مرد سے زیادہ اونچا ہے۔ماں ہے تو قدموں تلے جنت، بیٹی ہے باپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت,بہن ہے بھائی کا بہترین دوست اور اگر بیوی ہے تو شوہر کا بہترین ہم سفر اور ہر سکھ دکھ کی ساتھی ہے۔ مگر عورت کے ساتھ کوئی غلطی ہو جائے تو مرد اسکو ہمیشہ شق کی نظروں سے دیکھے گا۔
کچھ دن پہلے کی ایک افسوس ناک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں جو لاہور موٹر وے پر پیش آیا جس نے انسانیت کا جنازہ نکال لیا۔ایک اکیلی عورت کو دو درندوں نے اپنی جنسی اوس کا شکار بنایا۔اور اسکے دو معصوم بچوں کے سامنے اپنی درندگی پیش کیا۔سوچنے کی بات یہ ہے اس عورت کو اللہ تعالیٰ صحت بخشےگا بھی تو یہ عورت اپنے بچوں سے کیسے نظرے ملا پائی گئی اور بچے بھی کس طرح اپنی ماں سے نظریں ملا پائیں گے۔ ان ماں اور بچوں کے لیے ہر دن روز قیامت سے کم نہیں ہوگا۔
انتہاہی درد کی بات یہ ہے کہ CCPO لاہور موٹر وے عمر شیخ صاحب نے یہ بیان دیا کے اس عورت کو گاڑی کی فیول ٹینک پہلے سے فل کرا دینا چاہیے تھا ۔ موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ استعمال کرتی۔یہ ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے اس طرح کا بیان دیا۔ کیا اپنے ملک میں عورت ذات محفوظ نہیں ہے۔ کیا وہ اپنی مرضی سے کہی نہیں جا سکتی ہے۔کیا وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار نہیں سکتی۔
اس واقعے کے علاؤہ کراچی کے علاقے گجر نالے میں کم سن بچی کو اوس کی شکاری نے زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا۔اکر کب تک یہ سب چلے گا۔یہ لوگ ہے کون اور یہ معاملہ کیسے ختم ہو گا۔
یہ جو اوس کی پوجاری درندوں کا کوئی مزہب کوئی قوم اور نسل نہیں ہوتا۔یہ انکا مذہب وحشیات ہے۔ کبھی کبھی انکے سگے رشتے بھی انکے ہاتھوں میں بلی چڑ جاتی ہیں۔ یہ لوگ تازہ قبر کے عورت مردوں کی مردہ جسم کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔
انکا خاتمہ ہونا بہت ضروری ہے۔ان درندوں کو لٹکانا چاہیے تب تک انکا دم نکل نہیں جاہیں۔ دم نکلنے کے بعد انکو دفن نہیں کیا جائیں بلکہ انکی مردہ جسم کو پرندوں اور جانوروں کے حوالے کیا جائے۔پھر ہماری عورتوں کی عزت پامال نہیں ہو سکے گا۔ہماری عورتیں محفوظ ہو جائیں گئی۔
میں اقتدارِ اعلیٰ سے گزارش کرتا ہوں کے کوئی ایسا بل یا قانون بنایا جائے کہ جو شخص کسی بھی جنس کے ساتھ ریپ کریگا اسکو لٹکایا جائیں گا تب تک اسکا دم نہیں نکلے گا اور اسکے مردہ جسم کو جانوروں اور پرندوں کی خوراک بنا دیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں