بالوں سے محرومی کورونا کی وبا کا ایک اور اثر قرار
کورونا وائرس کے نتیجے میں کچھ مریضوں کو کئی ماہ بعد بالوں کی محرومی کا سامنا ہوتا ہے مگر اس بیماری سے محفوظ افراد کو بھی حیران کن طور پر اس معاملے کا سامنا ہورہا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق انہوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران ایسے متعدد مریضوں کو دیکھا ہے جو بہت تیزی سے بالوں سے محروم ہورہے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ ایسا کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ہورہا ہے اور یہ وائرس کے شکار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو بھی متاثر کررہا ہے جو کبھی کووڈ 19 سے متاثر نہیں ہوئے۔
اب ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد مریضوں کو بالوں سے محرومی کا سامنا ہورہا ہے اور یہ وائرس کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے خلاف لڑنے کا نفسیاتی تناؤ ہے۔
کلیولینڈ کلینک کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شلپی کھترپال نے بتایا کہ اس وبا کے باعث تناؤ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور ہم بالوں سے محرومی کے واقعات کو اسی تناؤ کی وجہ سے دیکھ رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا سے قبل اکثر کئی ہفتوں تک ڈاکٹر شلپی کے پاس بالوں سے محرومی کا سامنا کرنے والا ایک مریض بھی نہیں آتا تھا، مگر اب ہر ہفتے ایسے کم از کم 20 مریض ان کے پاس آرہے ہیں۔
جولائی میں انڈیانا یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے کووڈ 19 کو شکست دینے والے 1567 مریضوں میں کئی ماہ بعد سامنے آنے والی علامات کے ایک سروے میں 423 افراد نے غیرمعمولی رفتار سے بال گرنے کو رپورٹ کیا۔
نیویارک کے ایشکن اسکول آف میڈیسین کی جلدی امراض کی ماہر ڈاکٹر ایما گیوٹ مین یاسکی نے بتایا کہ انہوں نے متعدد طبی ورکرز کے بالوں سے محرومی کا علاج کیا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے کچھ کووڈ سے متاثر تھے مگر دیگر نہیں تھے، یہ صورتحال کا تناؤ تھا جو ان کو بالوں سے محروم کرنے لگا تھا۔طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ بیشتر مریضوں میں یہ مسئلہ عارضی ہوگا جو کئی ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وبا کے دوران بالوں سے محرومی کی 2 اقسام کو دیکھا، ان میں سے ایک کو ٹیلو جین ایفلویوم کہا جاتا ہے جس میں معمول کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں بال جھڑنے لگتے ہیں، ایسا عام طور پر کسی پرتناؤ تجربے کے کئی ماہ بعد شروع ہوتا ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ڈیوڈ گیفن اسکول آف میڈیسین کی ڈاکٹر سارہ ہوگن کا کہنا تھا کہ اس مسئلے میں بالوں کی نشوونما کا نظام متاثر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شلپی نے بتایا کہ صحت مند بالوں کے نظام میں بیشتر بال نشوونما کے مرحلے میں ہوتے ہیں جبکہ بہت کم یعنی 10 فیصد بال جھڑتے ہیں۔مگر ٹیلو جین ایفلویوم میں بالوں کی نشوونما کم اور جھڑنے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
اس طرح کا تجربہ کھ خواتین کو زگی کے بعد بھی ہوتا ہے جو 6 ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے مگر پرتناؤ صورتحال برقرار رہے تو کچھ لوگوں میں یہ مسئلہ دائمی ہوجاتا ہے۔
بالوں سے محرومی کا دوسرا مسئلہ alopecia areata ہے جس میں مدافعتی نظام بالوں کی جڑوں پر حملہ کرنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں سر کے درمیان سے بال غائب ہونے لگتے ہیں۔
سینٹرل مشی گن یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد جعفر نے بتایا کہ اس مسئلے کو بہت زیادہ نفسیاتی تناؤ سے جوڑا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ایما کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس مسئلے کے شکار افراد کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب مریض کووڈ 19 کا شکار نہیں ہووئے تھے مگر جو ہوئے تھے ان میں بہت تیزی سے پورے جسم سے بال جھڑ رہے تھے یہاں تک کہ آنکھوں کی پلکوں سے بھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں جسمانی ورم کے طوفان کی وجہ سے مدافعتی مالیکیولز میں اضافہ ہوا جو بالوں کی جڑوں پر حملہ آور ہوگئے۔
ڈاکٹر سارہ ہوگن نے بتایا کہ ماہرین اس حوالے سے پریقین نہیں کہ تناؤ سے یہ مسائل کیوں متحرک ہوتے ہیں جو مردوں اور خواتین دونوں کو متاثثر کررہے ہیں، ممکنہ طور پر ایسا تناؤ کا باعث بننے والے ہارمون کورٹیسول کی سطح میں اضافے یا خون کی سپلائی پر اثرات کے باعث ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شلپی نے بتایا کہ بالوں سے محرومی سے تناؤ کی شدت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے خاص طور پر خواتین میں۔ماہرین بالوں کے ان مسائل سے بچنے کے لیے اچھی غذا، وٹامنز یسے بائیوٹین اور تناؤ میں کمی لانے میں مددگار طریقوں جسیے یوگا، سر کی مالش یا مراقبے کا مشورہ دیتے ہیں۔