ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

رئیس ماجد شاہ
ہم تنقید کیوں نہ کریں؟ تنقید ہمارا حق ہے جب زندگی کی تین دہائیاں قیمتی وقت محنت,لگان,جوش,جذبہ بلکہ پوری جوانی اسی آس میں لٹا بیٹھے ہماری قوم کی زندگی میں ایک نہ ایک دن سویرا ہوگا روشنی ہوگی اندھیرا چھٹ جائے گا مشکلات سے نجات مل جائے ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ہم تنقید کیوں نہ کریں جب تمام امیدوں پر پانی پھرنے لگیں روشنی سویرا طلوع آفتاب ایک سراب بن جائے ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے چھا جائیں روشنی کی کوئی کرن نمودار ہونے کا نام نہ لے ہم تنقید کیوں نہ کریں بوئیں ہم کھائیں دوسرے محنت ہم کرئے ثمر کسی اور کو ملے شہید ہم ہوں اور جنت کسی اور کو ملے فاصلے ہم مٹائیں منزل پر کوئی اور پہنچے یعنی،،منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے،، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں پانچویں کلاس کا طالب علم تھا تو انہی سیاسی سرکلوں میں بیٹھ سیاسی درس حاصل کرتا رہا یہی شوق جنون میں اور جنونیت وطن سے محبت و عشق مبتلا کرتا رہا 1987 میں بی ایس او کا کارڈ ممبر رہا بنا بی ایس او، بی این وائی ایم بلوچستان نیشنل موومنٹ، نیشنل پارٹی تک 2017 کے نیشنل پارٹی کے مرکزی کونسل سیشن، صوبائی کونسل سیشن بمقام کوئٹہ اور سندھ وحدت کے کنونشن بمقام پریس کلب کراچی جو کہ میرے آخری سیشن تھے مجھ جیسے ہزاروں کارکن ہمیشہ پارٹی کیلئے مشین کی طرح کام کرتے رہے گرمی ہو سردی موسم کی خرابی ہو یا حالات کی نزاکت کوئی دھونس دھمکی گھر والوں کی پریشر کوئی چیز کسی قسم کی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لایا بالیچہ تمپ تربت گوادر حب کراچی کوئیٹہ پارٹی سیمت جہان پارٹی کوئی پروگرام ہوتا ہم جیسے بہت سارے نظریاتی ورکر خالی جیب کو نہیں دیکھتے تھے بس پہنچنا تھا پہنچ گئے کیونکہ نظریاتی ورکر اپنے کاز سے مخلص ہوتا ہے اور جنون کی حد تک اس کی پیروی کرتا ہے یہی،،نظریاتی ورکر،، سب سے زیادہ مار کھاتا ہے کیونکہ ان کے خلوص کا مخلصی کا ایمانداری کا ان کمٹمنٹ کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے یہی صورتحال ہمارے جیسے سینکڑوں نظریاتی ورکروں کا رہا جن کے خلاف ایک الفاظ ناقابل برداشت تھا ان پر ہمارا ایمان عقیدہ اتنا مضبوط تھا کہ یہ لوگ ہمیں منزل پر پہنچا کر چھوڑیں گے ہمارے جیسے ہزاروں کارکنوں کی محنت لگن جد وجہد کی بدولت جب وہ منزل پر پہنچ گئے انھیں پیچھے کوئی نظر نہیں آیا اگر آیا تو ابن الوقت خوش آمدی طبقہ ایک مخصوص ٹولہ ایک مفاداتی گروہ ایسے ٹھیکدار طبقہ جنہوں نے پوری زندگی میں پارٹیاں بدلنے کا ایک ریکارڈ بنایا ہوا ہے کے ہتھے چڑھ گئے جب یہی لوگ اقتدار سے باہر تھے یا اپوزیشن میں ہوتے تھے تو لیڈر شپ کی روزانہ ایس ایم ایس فون رابطہ کاری اس طرح تھا جس پر ہم فخر کرتے تھے لیکن جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ہر قربانی دینے والا ورکر ان کیلئے اجنبی بن جاتے تھے ان کی جگہ ابن الوقت رشتہ دار نام نہاد ٹھیکیدار مفاداتی گروہ مخصوص ٹولہ من پسند لوگ ایک خاص طبقہ عیاشی کرتے نظر آتے جبکہ نظریاتی لوگ پس منظر سے بھی دور دھکیل دئیے جاتے وہی لوگ زیادہ معتبر ٹھہرتے جو اپوزیشن کے ادوار میں ان کیلئے نامناسب اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں کیا کرتے تھے مگر اس قسم کے لوگ ان کے دل کی قریب ہوگئے آجکل جب?م ان مذکورہ بالا باتوں کو سامنے رک?تے ہوئے تنقید کرتے ہیں یا دوسرے معنوں میں انھیں آئینہ دکھاتے ہیں تو کچھ ناعاقبت اندیش لوگ سیخ پا ہو کر ہم پر چڑھائی کرتے ہیں بجائے اپنی اصلاح کرنے کے اپنی لائین درست کرنے کے اپنے گریبان میں جھانکنے کے ستم ظریفی دیکھئے جو لوگ اقتدار کے دور میں مفادات حاصل کرنے کیلئے چالاکی مکاری اور اپنی چرب زبانی کی وجہ سے جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے وہ بھی ہمیں ہدف تنقید نشانہ بنانے پیش پیش ہیں جسکا اس پوری جد وجہد میں زرا برابر بھی کردار نہیں تھا یعنی لڑائی ہم جیسے ورکروں نے نے لڑی اور کامیابی حاصل کی اور مال غنیمت سے وہی فیض یاب ہوئے جو دشمن کے کیمپ میں بیٹھ کر ہم پر کمان چلاتے رہے ان کو پتہ ہی نہیں جس پارٹی کے پیچھے آپ ٹھیکدار، سرمایہ دار، بزنس میں، جائیداد و بنگلوں کے مالک بنے ہو میڈیکل، اسکالرشپ، ترقی، گھنٹہ، مراعات حاصل کر چکے ہو، وہ پارٹی اصل وارث وہی ورکر رہے ہیں جومشکل وقت میں چٹان بن کر ثابت قدم رہے ہیں مگر یہ بات یاد رکھیں یہ نہ پہلے بدلے ہیں نہ آئیندہ بدلیں گے کیونکہ انسان ہو یا حیوان ان کی فطرت کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتی جب اقتدار سے باہر ہونگے غلطیوں کا اعتراف کرنے میں سر سجدے سے نہیں ہٹاتے اور جب اقتدار میں آتے ہیں تو اپنی فطرت سے مجبور ہوتے ہیں لوگوں کو بیوقوف بنانے انھیں سبز باغ دکھانے کے ماہر ہیں ہر طرح کے ناٹک ڈرامہ بازی کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں مگر اب عوام و سیاسی ورکروں نے ان کے تمام روپ دیکھ لئے ہیں تب ہی تو ان کا ساتھ چھوڑ دیا یہ پھر دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کی بحالی کے لئے ایک نئے چال چلنے والے ہیں سیاست میں مایوسی، نا امیدی بیگانگی بیزاری کا جو بیج بویا ہے طویل عرصے تک اس بوئے گئے بیج کی فصل کاٹیں گے کیونکہ یہ ان کا اپنا بویا گیا بیج ہے اس میں نظریاتی سیاسی ورکروں کا کوئی دوش نہیں ہے یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے بلکہ یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا اس مخصوص مائنڈ سیٹ نے اب ایک مافیا کی شکل اختیار کرلی ہے علامہ اقبال نے جواب شکوہ میں کہا تھا کہ
,,,ہم وفادار نہیں
تو بھی تو دلدار نہیں،،،،

اپنا تبصرہ بھیجیں