امریکا چین مخالفت میں محتاط رہے

سابق امریکی وزیر خارجہ اور دانشور ہنری کسنجر نے خبردار کیا ہے امریکہ چین محاذ آرائی سے دنیا جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔امریکہ اور چین کو محاذ آرائی کی حدیں طے کرنی چاہئیں،ورنہ دنیا پہلی جنگ عظیم کی طرح ایک اور عالمی جنگ کا سامنا کر سکتی ہے۔دونوں ممالک کو اپنے تنازعات حل کرنے کے لئے بہتر اور دانشمندانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ حالات کی سنگینی کا اداراک کرے، دنیا تیزی سے بدل رہی ہے،نئے تقاضوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ تنازعات حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ورنہ پوری دنیا عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے۔سابق امریکی وزیر خارجہ کے خدشات بے بنیاد نہیں، امریکی صدراپنے حالیہ بیانات میں چین کو سبق سکھانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اورامریکی وزیر خارجہ پومپیونے چین کی سرحد پر واقع انڈو پیسفک ریجن کے تین ممالک بھارت، جاپان اور آسٹریلیاکے وزاراء خارجہ کے ساتھ مشترکہ اجلا س میں ایک نئے خطرے کا اشارہ دینے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے ہانگ کانگ اور تائیوان کے خلاف ہونے والے مبینہ مظالم کا حوالہ دیتے ہوئے چینی کمیونسٹ پارٹی کا نام لے کر کہا:اس کے استحصال، بدعنوانی اور ظلم کی بھرپور مخالفت کی جانی چاہیئے اورانڈو پیسفک ریجن کو آزاد کرنے کا نعرہ بھی دیا۔جبکہ باقی تین ممالک کے وزرائے خارجہ نے چین کا نام تک نہیں لیا۔ان میں سے کوئی چین سے لڑنے کو تیار نہیں،ان کا کہنا تھا کہ ریجن میں قانون کی حکمرانی چلنی چاہیئے۔ سمندری راستے سب کے لئے کھلے رہیں۔جاپان کے وزیر اعظم یوشیحیدسوگا نے بھی تین ممالک کی رائے سے اتفاق کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں ہوا۔ گویا ریجن میں امریکی پالیسی کو مطلوبہ حمایت نہیں ملی۔جاپان 1945میں امریکی عتاب کا نشانہ بنا،ایٹم بم کی تباہ کاری جاپان کے علاوہ کسی دوسرے ملک نے نہیں دیکھی،وہ نفسیاتی طور پر کسی ممکنہ ایٹمی جنگ کاحامی نہیں۔ چینی مسلح افواج لداخ (بھارت)میں بلند چوٹیوں پر مورچہ سنبھال چکی ہیں۔وہ جانتا ہے کہ امریکہ ہزاروں میل دور سے بیانات جاری کرنے کے سوا کوئی مدد نہیں کر سکے گا۔بھارت اور جاپان کی آمادگی کے بغیر آسٹریلیا اکیلاامریکی پالیسی کا حصہ نہیں بنے گا۔اس کے باوجود امریکہ اپنے مفادات کے لئے کوئی بھی حد عبور کر سکتا ہے۔اس کا پہلا معاشی مسئلہ تباہ کن اسلحے کی فروخت ہے۔اسکی سیاست اسی معاشی مفاد کے تابع ہے۔1945سے آج تک امریکہ نے جنگ کا کوئی نہ کوئی جواز پیدا کیا اور اس کو اپنا مشن قرار دے کرطویل عرصے تک اپنی کمائی کا ذریعہ بنائے رکھا۔عراقی صدرصدام حسین کی مدد سے 8سال تک ایران کے خلاف جاری رکھی، پھر کویت پر حملہ کرایا،اور اس خطے سے اربوں ڈالر نقد اور ان کے وسائل بھی آخری قطرے تک نچوڑ لئے۔اسی دوران اسامہ بن لادن کا ہوا کھڑا کیا اور افغانستان کے ساتھ پاکستان تک اس کا دائرہ پھیلا دیا۔اب یہاں سے نکلتے اسے وقت ایک نیا محاذ درکار ہے۔ایک طرف اس کی نظریں ایران پر جمی ہیں اور دوسری جانب وہ انڈو پیسفک ریجن کو للچائی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔مگر یہاں اسے صدام حسین کاکوئی نعم البدل نہیں مل رہا۔بھارت سے اسے توقع تھی کہ دو چار دہائیاں اس کو بیساکھی بنا کر گزار لی جائیں گی مگر چین نے ایک سال کی سوچ بچار کے بعد ایکچوئل لائن آف کنٹرول عبور کرکے لداخ میں اپنی فوج پہنچا دی اور بھارت کے سر پر سوار ہے۔ بھارت کو اتنے بڑے اقدام کی توقع نہیں تھی۔وہ غالباً امریکی شہ پرچین میں گھس کر اس کی پٹائی کے نعرے لگا رہا تھا۔چین کی پیش قدمی نے بھارت اور امریکا دونوں کے خواب ملیا میٹ کر دیئے۔معمولی سی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے کہ چین نے اپنی معاشی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے خنجراب سے گوادر تک جو معاشی برآمدہ (کوریڈور) تعمیر کیا ہے اس کی حفاظت سے غافل نہیں رہ سکتا۔ اسے چشم تصور سے کاشغر سے نیل کے ساحل تک پھیلا کر دیکھا جائے۔آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان جھڑپ عالمی جنگ کی تیاری کے لئے ہونے والی آزمائشی مشق کے طور پر مانی جائے۔ترکی یروشلم کو اپنی سلطنت کہنے لگا ہے۔القاعدہ اورداعش جیسا کارتوس آزمائے دو دہائیاں بیت چکی ہیں، امریکہ کے لئے شائد اس بار کارآمد نہ ہو۔تجربے سے مشرق وسطیٰ نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ایران پر چڑھائی کے امریکی منصوبوں کو نیٹو ممالک کی جانب سے پذیرائی نہیں ملی۔ سرد جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ نے خبردار کرنا شروع کر دیا ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے۔80اور 90کی دہائی میں جینے والے یہ نہ بھولیں کہ اس دوران عوام استحصال کے معنے اور استحصالی قوتوں سے واقف ہو چکے ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کی جانب سے ”انڈو پیسفک ریجن کو آزاد کرانے“ جیسے نعرے کے جواب میں امریکہ کو پرجوش حمایت نہیں ملی بلکہ سادہ حمایت بھی نہیں مل سکی۔امریکی پالیسی ساز اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے،انہیں معلوم ہوگا کہ دنیا اب اتنی بھولی نہیں رہی کہ اسے اونٹ کے گلے میں امریکی دوستی زندہ باد کی تختیاں لٹکاکر بیوقوف بنایا جا سکے۔البتہ اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ امریکہ جلد ہی اپنا قبلہ درست کر لے گا۔بگڑی ہوئی عادتیں سدھانے میں وقت لگتا ہے اور تاریخ اپنا فیصلہ سنانے میں جلدبازی سے کام نہیں لیتی۔بظاہر یہی محسوس ہو رہا ہے کہ تاریخ کروٹ لینے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ہنری کسنجر جیسا شخص چین کے حکمرانوں کو عبرت کا نشان بنانے کی دھمکی نہیں دے رہے،امریکہ اور چین کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ محاذ آرائی کی حدیں طے کر لیں۔پاکستان کے لئے بھی ہنری کسنجر کی صلح جو حکمت عملی میں ایک پیغام چھپا ہواہے،مہم جوئی حکومت اور اپوزیشن میں سے کسی کے لئے مفید نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں