وندر سیرندہ جھیل پر بااثر افراد کا تسلط، مچھلیوں اور پرندوں کا غیر قانونی شکار، حکومت کی چشم پوشی

حب (رپورٹ: عزیز لاسی) اندھیر نگری چوپٹ راجا، دعوے گڈ گورننس کے جبکہ زمینی حقائق ان دعوﺅں کے برعکس ہیں وندر سیرندہ جھیل پر بااثر افراد کا تسلط مچھلی کے شکار کیلئے اندرون سندھ سے لائے گئے ماہی گیروں کو بٹھا دیا روزانہ لاکھوں روپے کی مچھلی شکار کی جاتی ہے جبکہ مقامی دیہاتوں کے مکینوں کو روزگار تو درکنارکھانے کیلئے بھی مچھلی پکڑنے کی اجازت نہیں جھیل سے نہ صرف مچھلی کا مبینہ طور پر غیر قانونی شکار کیا جارہا ہے بلکہ پرندوں کا بھی بے دریغ شکار کیا جاتا ہے انتظامیہ اور متعلقہ سرکاری محکمے کے افسران نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اثروروسوخ کے آگے کوئی لب کشائی کرنے کو تیار نہیں اس سلسلے میں بتایا جاتا ہے کہ ضلع لسبیلہ کے ضلعی ہیڈ کواسٹر اوتھل کی حدود اور ضلع حب کے صنعتی وساحلی شہر وندر کی حدود کے درمیان کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کے کنارے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع کئی کلو میٹر پر محیط سیرندہ جھیل جو کہ کئی سال قبل بعض افراد کو اراضی کے نام پر لیز پر دی گئی تھی تاہم بعدازاں وہ لیز منسوخ کردی گئی جسکے بعد مذکورہ جھیل کو لاوارث حالت میں چھوڑ دیا گیا ذرائع بتاتے ہیں کہ اسوقت سیرندہ جھیل کا حق ملکیت محکمہ جنگلات کے پاس ہے حالانکہ اگر حکومتی پالیسی کے مطابق دیکھا جائے تو سیرندہ جھیل کے حقوق فشریز ڈیپارٹمنٹ کے لینڈ فشریز شعبہ کے حوالے ہونے چاہیں لیکن ایسا نہیں ہے جبکہ اسطرح کے اقدام سے قدرتی طور پر معرض وجود میں آئی ہوئی سیرندہ جھیل لینڈ فشریز کی تحویل میں ہونے سے صوبائی حکومت کو ریونیو کی مد میں رقم مل سکتی ہے لیکن سرکاری افسران اور بااثر افراد کے جگاڑ کی وجہ سے اب تک اسطرح کا کوئی اقدام سامنے نہیں آسکا ہے سیرندہ جھیل کی آبادکاری کا انحصار بارشوں پر ہے چونکہ گزشتہ سالوں موسلادھار بارشوں کے بعد یہ جھیل اس وقت پانی سے بھر چکی ہے ذرائع بتاتے ہیں کہ قبل ازیں مقامی افراد جو کہ اس جھیل کے قریب گوٹھوں کے رہنے والے ہیں وہ مچھلی کا شکار کر کے اپنا گزر بسر کرتے تھے لیکن اب کچھ عرصہ سے بعض بااثر افراد نے اس جھیل کو اپنی آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے اور محکمہ جنگلات وائلڈلائف اور بعض انتظامی اہلکاروں سے مبینہ ساز باز کر کے جھیل کو اپنی دسترس میں لے لیا ہے اور اندرون سندھ سے ماہی گیروں کو لاکر بٹھا دیا گیا ہے جو کہ روازنہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے کی مچھلی شکار کر کے کراچی میں فروخت کر رہے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کو روزگار تو درکنار ایک وقت کھانے کیلئے بھی مچھلی کا شکار کرنے کی اجازت نہیں ہے سیرندہ جھیل سے ایک طرف مچھلیوں کا مبینہ طور پر غیر قانونی شکار تو دوسری جانب جھیل پر بسیرہ کرنے والے مقامی اور سائبرین پرندوں کا غیر قانونی شکار بھی عروج پر ہے لیکن نہ تو مقامی انتظامیہ اور نہ ہی جنگلات وائلڈ لائف کے حکام اس جانب توجہ دینے کو تیار نظر آتے ہین ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرندہ جھیل کو لینڈ فشریز کی تحویل میں دیکر اس سے نہ صرف حکومتی خزانے کو ریونیو دلایا جاسکتا ہے بلکہ قانونی طریقہ سے مچھلیوں کے شکارکی اجازت سے مقامی افراد کیلئے انکے دروازے پر روزگار کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں