بت شکن
تحریر: انور ساجدی
بت سازی اور بت پرستی ایک بہت ہی قدم روایت ہے۔انسان نے جب ”دیوتا“ بنا لئے تو ان کے بت بنا کر ان کی پوجا شروع کر دی لہٰذا بت سازی کو قدیم ترین انسانی فن یا ہنر کہا جا سکتا ہے۔مجھے صحیح طورپر معلوم نہیں ہے لیکن زرتشت پہلا مذہب تھا کہ اس نے بت سازی اور بت پرستی کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔اس کے بعد اسلام ایک بت شکن انقلاب کے طور پر سامنے آیا اور سب سے پہلے خانہ کعبہ میں رکھے گئے بتوں کو توڑ دیا گیا۔چند سال قبل افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی تو امیرالمومنین ملا محمد عمر نے حکم دیا کہ بامیان میں چٹانوں کو تراش کر مہاتما بدھ کے دیوہیکل بت کو توڑ دیا جائے۔شنید میں آیا تھا کہ جاپان کی حکومت نے بہت کوشش کی اور طالبان کو 5ارب ڈالر دینے کی آفر کی لیکن ملا عمر نے کہا کہ اسلام بت شکن مذہبہے لہٰذا بارودی دھماکہ کے ذریعے بدھا کے مجسمہ کو پاش پاش کر دیا۔
طالبان کی موجودہ حکومت بھی پرانی روش پر کارفرما ہے اور اس نے ٹی وی پر پابندی عائد کردی ہے یعنی کوئی تصاویر نہ دیکھے صرف ریڈیو سے کام چلایا جائے یعنی صرف آوازوں پر گزارہ کیا جائے۔اگر بت سازی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو لاکھوں کروڑوں تفصیلات ملیں گی مغربی امریکہ کے انڈینز پہاڑوں اور وسیع صحراؤں میں بہت سارے نقش و نگار اور انسانوں اور جانوروں کی اشکال کندہ ملیں گی۔موہنجودڑو سے برآمد چیف ملا کی تصویر تو ساری دنیا میں مشہور ہے۔
یورپ میں بت سازی آج بھی جاری و ساری ہے۔لندن کے مادام تساؤ کے میوزیم میں موم سے بنے عالمی شاہیر کے بت بہ کثرت نظر آتے ہیں۔یہاں پرغیرمعمولی کارنامے انجام دینے والے لیجنڈری کرداروں کے مومی بت بنا کر رکھے جاتے ہیں۔
اگر کوئی لندن جائے تو مشہورٹریفالگر اسکوائر پر کافی سارے بت ایستادہ نظر آئیں گے میں نے فاتح سندھ چارلس نیپئر کے بت کے ساتھ اس کی تاریخ پڑھی یہ موصوف ایسٹ انڈیا کمنی کے ایک بڑے جرنیل تھے کچھ عرصہ قبل ایک سروے میں انگر یزوں کی نئی نسل نے رائے دی کہ تمام بتوں کو گرا دیا جائے کیونکہ سینکڑوں سال قبل کے یہ کردار اب مردہ ہوچکے ہیں اور نئی نسل کو معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ تھے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ انگریزان بہادروں کے بڑے قدردان تھے جنہوں نے جنگ کے محاذوں پر انگریزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جان کی قربانی دی اور 1757 کی جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں نے مناصب اور مراعات میر جعفر اور ان کے صاحبزادے کے لئے وقف کر دیں لیکن مجسمہ نواب سراج الدولہ کا بنایا اسی طرح برٹش میوزیم میں بہت عرصہ تک دکن کے شیر ٹیپو سلطان کی تلوار سامان حرب اور ذاتی استعمال کی اشیاءمحفوظ رکھیں انہوں نے غدار سپہ سالار قاسم کی کوئی یادگار نہیں بنائی۔
1843میں حیدرآباد کے قریب میانی کی جنگ کے اختتام پر انگریزوں نے ہوشو شیدی کے جسد خاکی کو21توپوں کی سلامی دی اور جنرل چارلس نیپر نے حکم دیا کہ پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کی جائے۔بلوچوں کے پاس اعداد و شمارنہیں تھے لیکن یہ ریکارڈ انگریزوں نے رکھا کہ سندھ دھرتی کا دفاع کرتے ہوئے کتنے لوگ شہید ہوئے۔فہرست میں لکھا ہے کہ اتنے ٹالپر، اتنے نظامانی اتنے لغاری اور اتنے دیگر بلوچ میدان جنگ میں مارے گئے۔
ہوش محمد شیدی نے میانی ہی کے میدان میں اپنا مشہور نعرہ لگا کر جام شہادت نوش کیا تھا کہ
مرسوں مرسوں
سندھ نہ ڈیسوں
رواں سال جب آکسفورڈ پریس والوں نے آغا نصیر خان کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں مجھے مدعو کیا تو میرے اظہار خیال کے بعد سندھی دانشور عبدالخالق جونیجو میرے پاس آئے اور نہایت غصے میں کہا کہ کیا بلوچ اپنے ساتھ اپنی زمین بھی لائے تھے میں نے کہا کہ جب بلوچوں کا خون سندھ کی مٹی میں شامل ہوگیا تو ایک دائمی تعلق پیدا ہوگیا۔بات آخیر ہوگئی آج آپ سندھ کے علم بردار ہیں آپ کے آباؤ اجداد فرار ہوئے تھے حالانکہ وہ انگریزوں کی طرف سے لڑائی میں حصہ لے رہے تھے۔
برصغیر جو ہے وہ بت سازی اور بت پرستی کا مرکز ہے کیونکہ یہاں جنم لینے والے تینوں بڑے مذاہب ہندو مت، بدھ مت اور جین مت ہیں۔بت پرستی عقائد کا لازمی حصہ تھی ہندو بھگوان رام سیتا، کرشن،کھشمن ،دروپدی، درگا میا اور دیگر اوتاروں کے قیمتی بت بنا کر عبادت گاہوں میں رکھتے ہیں اوران کی پوجا کرتے ہیں۔اسی طرح مہاتما بدھ کے ہزاروں بت دنیا بھر میں جہاں ان کے پیروکار موجود ہیں نظر آئیں گے موجودہ پاکستان کا علاقہ ٹیکسلا چونکہ بدھ کا کیپٹل تھا اس لئے یہاں متعدد آثار ہیں۔اسی طرح سوات مردان اور دیگر علاقوں میں بھی یہ آثار بہت ہیں پر اسے کیا کہیے کہ مسلمانوں نے8سو برس تک ہندوستان پر حکومت کی لیکن زیادہ تر نے بتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ایک حملہ آور محمود آف غزنی نے سومنات کے مندر پر17 حملے کئے اور یہاں پر اسلام قائم کرنے کے بجائے سونا لوٹنے کو ترجیح دی۔اورنگزیب ایک متشدد اور انتہا پسند حکمران تھے انہوں نے دکن کی مہمات کے دوران بتوں کو نقصان پہنچایا لیکن انہوں نے جذیہ وصول کرنے کو زیادہ ترجیح دی۔
جتنے حکمران آئے چاہے وہ لودھی ہوں غوری ہوں ترک ہوں یا مغل وہ ہندومت کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے کیونکہ یہ لوگ ہندوستان کے عیش وآرام کے مزے لینے آئے تھے اسلامی نظام قائم کرنے نہیں ورنہ آج ہندوستان میں کوئی ہندو نہ ہوتا۔ایسے حکمران بھی گزرے ہیں جو سو فیصد سیکولر تھے جیسے کہ اکبر اعظم یا خاندان غلامان اور تغلق وغیرہ۔
جواہر لال نہرو نے لکھا ہے کہ اگر اورنگزیب کی جگہ داراشکوہ حکمران بن جاتا تو ہندوستان کا نقشہ بدل جاتا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ ہندو دیوتاؤں کے مقابلے میں مسلمانوں نے مصنوعی کردار اور جعلی ہیرو بنائے جیسے کہ محمود غزنوی، اورنگزیب عالمگیر،محمد غوری اور احمد شاہ ابدالی لطف کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ سارے کردار پاکستان کے حصے میں آئے پاکستان کی حکومتوں نے شروع ہی میں ان کرداروں کو نصاب کا حصہ بنا کر ایک مسخ شدہ تاریخ بچوں کو پڑھائی بدقسمتی سے یہ روایت آج بھی قائم ہے اور تو اور ہتھیاروں کے نام بھی انہی پر رکھے گئے ہیں۔اگر یہ لوگ ریاست کے ہیرو ہیں تو پھر یہ افغانستان کے کیا لگتے ہیں؟ آپ نے ٹی ٹی پی بنائی آج اس کے مخالف ہیں۔ان غازیوں کے وارث تو افغانستان کے لوگ ہیں آپکا ان سے کیا تعلق؟۔
اسے کیا کہیے کہ پڑھائے جانے والے نصاب می کسی فرزند زمین کا ذکر نہیں ہے۔جیسے جس زمین پر آج ریاست استوار ہے وہ بانجھ تھی اور اس نے ایسے بچے نہیں جنے تھے کہ ہیرو بن سکیں۔جعلی نصاب مرتب کرنے اور ایک جعلی نظریہ مسلط کرنے کی وجہ سے ہی یہ ریاست پیچھے ہے کیونکہ تمام معاملات حقائق کی بنیاد پر نہیں چلائے جا رہے۔یاد رکھنے کی بات ہے کہ جو وقت کے میر جعفر اور میر صادق ہیں ان کا وقت تھوڑا ہے وہ کبھی ہیرو کا رتبہ نہیں پاتے نہ ہی ان کے بت بنا کر عوام انہیں دیوتا بنائیں گے۔
ہیرو کا مرتبہ وہ لوگ پاتے ہیں جن کا کردار غیرمعمولی ہو جن کا عمل لافانی ہو ایسے لوگوں کو اپنے بتوں کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے بت عوام کے دلوں میں موجود ہوتے ہیں اگر اس سلسلے میں ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن کا مطالعہ کیا جائے تو ہیرو اور زیرو کا فلسفہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جائے گا۔