کوئٹہ کو پانی کی سپلائی کرنے کے لئے تعمیر کیا جانے والا مانگی ڈیم مدت تکمیل کے دو سال بعد بھی نامکمل
کوئٹہ(این این آئی) کوئٹہ کو پانی کی سپلائی کرنے کے لئے تعمیر کیا جانے والا مانگی ڈیم مدت تکمیل کے دو سال بعد بھی نامکمل، منصوبے کی لاگت 18ہزار ملین روپے سے تجاوز کرگئی ، بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے 15دن میں تحقیقات کر کے ذمہ داروں کے تعین کی ہدایت کردی ۔پیر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس بلوچستان اسمبلی کے کمیٹی روم میں منعقد ہوا، جس میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای) ڈیپارٹمنٹ کے مالی سال 2022-23 کے آڈٹ پیراز پر غور کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت پی اے سی کے چیئرمین اصغر علی ترین نے کی، جبکہ کمیٹی کے اراکین غلام دستگیر بادینی (ایم پی اے) ،میر زرین خان مگسی (ایم پی اے) اکائونٹنٹ جنرل بلوچستان نصراللہ جان, ڈائریکٹر جنرل آڈٹ بلوچستان شجاع علی, سیکرٹری پی ایچ ای عمران گچکی ، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی ، ایڈیشنل سیکرٹری قانون سعید اقبال، ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عارف اچکزئی ، ایس ای کیسکو بلوچستان , چیف اکائونٹس آفیسر سید ادریس آغا , پی ڈی، پی ایچ ای و دیگر آفیسرز نے بھی شرکت کی۔اجلاس میں واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر نے بتایا کہ 2022 میں ٹرانسفارمر ز کے ڈیمانڈ نوٹس جمع کرائے گئے تھے، لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔چیئرمین پی اے سی نے کیسکو کو ہدایت دی کہ وہ کام مکمل کرنے کے لیے حتمی وقت فراہم کرے اور کیسکو اور کیو واسا کے درمیان تعاون کو یقینی بنائے تاکہ عوام کو درپیش مسائل کا خاتمہ ہو۔دوران اجلاس رکن اسمبلی غلام دستگیر بادینی نے زور دیا کہ کیسکو اور کیو واسا کے تنازعات عوام پر اثر انداز ہو رہے ہیں، اور اگر تاخیر جاری رہی تو کیسکو کو ایڈوانس ادائیگی روک دی جائے اور آئندہ کام کے تکمیل کے بعد کیسکو کو بلز کی ادائیگی کی جائے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مالی سال 2021-22 کے لیے پی ایچ ای ڈیپارٹمنٹ کو 16,505.666 ملین روپے مختص کیے گئے تھے، جن میں سے 15,489.287 ملین روپے خرچ کیے گئے، جبکہ 1,016.379 ملین روپے خرچ نہیں کیے گئے۔ پی اے سی نے بجٹ کی ناقص منصوبہ بندی اور بار بار بجٹ لیپس ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور ڈیپارٹمنٹ کو اس مسئلے کے حل کے لیے مناسب نظام اپنانے کی ہدایت کی۔اجلاس میں منگی ڈیم منصوبے میں لاگت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ۔اجلاس کو بتایا گیا کہ منگی ڈیم منصوبہ 2017 میں شروع ہوا تھا اور 2022 تک مکمل ہونا تھا، لیکن 2024 تک بھی مکمل نہیں ہوا۔ منصوبے کی لاگت 9,334.078 ملین روپے سے بڑھ کر سال 2022 میں 13,247.893 ملین روپے ہو گئی۔ اور اب 2024 میں محکمہ کی نا اہلی کی وجہ سے مزید بڑھ کر 18000 اٹھارہ ہزار ملین ہو چکا ہے۔ جوکہ باعث تشویش ہے جس پر چیئر مین پبلک اکائونٹس کمیٹی اصغر علی ترین نے ڈی جی آڈٹ کو ہدایت دی کہ 15 دن کے اندر خصوصی انکوائری کر کے ذمہ داران کی نشاندہی کی جائے تاکہ پی اے سی ذمہ داروں کو سزا دے۔اجلاس میں ایک پیرا پر مختلف کاموں کے لیے 64.131 ملین روپے کی اضافی ادائیگی پر پی اے سی نے سختی سے نوٹس لیا پی اے سی نے کنٹریکٹرز سے وصولی کا حکم دیا اور پانچ اضلاع میں فزیکل ویریفکیشن کی بھی ہدایت کی۔ایک اور پیرا پر 32.055 ملین روپے کی بے قاعدہ ادائیگیاں اور بغیر اوپن ٹینڈرز پر پی اے سی نے نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پیرا قوانین پر محکمہ عمل درآمد نہ کر کے کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔ کمیٹی نے بی پیپرا قوانین پر سخی سے عمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔اجلاس میں کمیٹی کو بتایاگیا کہ جنوری 2023 کے اجلاس میں 20.748 ملین روپے کی وصولی کا فیصلہ ہوا تھا، لیکن تاحال رقم وصول نہیں ہوئی۔ پی اے سی نے ہدایت دی کہ متعلقہ پیرا پر سابقہ پی اے سی کے فیصلے کے مطابق 15 دن کے اندر رقم وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے جائے۔کمیٹی نے بی پپیپرا کے قوانین پر سختی سے عمل کرنے پر زور دیا، خاص طور پر خریداری اور ٹینڈرز کے حوالے سے، تاکہ بے ضابطگیوں کو روکا جا سکے۔چیئرمین اصغر علی ترین نے پی ایچ ای ڈیپارٹمنٹ کی ناقص تیاری اور منصوبوں کے غیر معیاری نفاذ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اس دوران رکن زرین خان مگسی نے کہا کہ اس سے عوامی نقصان ہواہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ غفلت اور نااہلی کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔پی اے سی نے عوامی فنڈز کے موثر استعمال کو یقینی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا اور ڈی جی آڈٹ کو بے ضابطگیوں پر مقررہ وقت کے اندر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دی۔ کمیٹی نے بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔