پارلیمانی سیاست عوام کی خدمت کیلئے کررہے ہیں، بلوچ اور بلوچستان کو مضبوط و منظم سیاسی قوت ہی بچاسکتی ہے، ڈاکٹر مالک

پنجگور (نمائندہ انتخاب) نیشنل پارٹی کے سربراہ، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیاست کی راہیں مسدود کرنے کے باعث معاشرے میں سیاسی بیگانگی بڑی تیزی کے ساتھ سرایت کرچکی ہے نیشنل پارٹی سیاسی جمہوری جدوجہد سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگی بلکہ کارکنان وعوام کو نظریاتی وفکری جہد سے جوڑنے کی کوشش کرے گی کیونکہ بلوچ اور بلوچستان کو مضبوط و منظم سیاسی قوت ہی بچا سکتی ہے۔ بلوچ سیاسی جماعتوں میں اتحاد ناگزیر ہے تاہم ہماری یہ کوشش بوجوہ ایک خواہش سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجگور سے تعلق رکھنے والے مکران کے سینئر صحافی خالد جمیل سے اپنی رہائش گاہ تربت میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ہم نے پارلیمانی سیاست اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے کی ہے، لیکن بدقسمتی سے نہ صرف مکران بلکہ پورے بلوچستان کے سیاسی ماحول کو گرد آلود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی ورکروں کو دیوار سے لگا کر عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے کے بجائے غیر سیاسی عناصر کو عوام پر مسلط کیا جاتا ہے، جو کسی صورت سیاسی اور عوامی حلقوں کو قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مکران ایک سیاسی زون ہے جس نے ہمیشہ بلوچستان میں فکری و نظریاتی جدوجہد کی آبیاری میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ مکران اور رخشان ڈویژن کے سرحدی علاقوں میں پاک ایران بارڈر کی بندش کے باعث لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں، کیونکہ ان علاقوں میں عوام کے لیے کوئی اور ذریعہ معاش موجود نہیں۔ نہ یہاں کوئی فیکٹری ہے اور نہ ہی زراعت کا کوئی مو¿ثر نظام۔ بارڈر ہی وہ واحد ذریعہ ہے جہاں سے لوگ اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروریات کی چیزیں لا کر بمشکل اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام سرحدی علاقوں کے کراسنگ پوائنٹس کھولے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے نوجوانوں کو علم و ہنر کے حوالے سے ہر ممکن سہولیات فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور تعلیمی اداروں میں سہولیات فراہم کر کے پرامن ماحول کے قیام میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مزید کہا کہ آج بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لاکھوں بچے علم کے عظیم زیور سے محروم ہیں۔ انہیں تعلیمی اداروں کا راستہ دکھانا اور سہولیات فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل اور دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود یہاں کے باسی دو وقت کی روٹی اور پانی کی ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ جب تک صوبے میں احساسِ محرومی اور مایوسی کا خاتمہ نہیں ہوگا، حالات کو معمول پر لانا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادبی و ثقافتی اداروں ، پریس کلبز اور کھیلوں کی تنظیموں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے ادارے معاشرے کے لیے بہتر افراد کار پیدا کرتے ہیں میری ہمیشہ کوشش یہی رہی ہے کہ اکیڈمیز ، اسپورٹس اور پریس کلبز کو کسی سیاسی امتیاز کے بغیر تعاون کروں انتہائی محدود وسائل کے باعث اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے تاہم اس کے باوجود کئی ادبی و ثقافتی اداروں اور اسپورٹس اداروں کو وسائل کے اندر رہتے ہوئے فنڈنگ کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں