بلوچستان کا کیپیٹل جام

تحریر:ۤآغا توصیف گیلانی

پورا شہر یرغمال ہے حکومت کہ کان پر جوں تک نہی رینگ رہی۔ نہ ملازمین کو کچھ مل رہا ہے۔ صرف پورے شہر اور دوسرے شہروں سے آنے والی عوام کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ چھ روز سے جاری احتجاج نے پورے کوٸٹہ شہر کے عوام کی زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔
لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گٸے ہیں۔ ریڈ زون کا علاقہ چھ روز سے بند ہے اور شہر کی سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں ،گھنٹوں گھنٹوں تک لوگ روڈ پر راستے سے نکلنے کیلئے انتظار کرتے ہیں۔صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔حکومت کے پچھلے ڈھاٸی سالہ دور میں آٸے روز دھرنے اور احتجاج سے کوٸٹہ شہر کا معمول بن چکا ہے۔ حکومت میں رہنے والے عوام کی کسی پریشانی کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہےحکومت نیند کی گولیاں کھا کر سوٸی ہوئی ہے۔ چھ روز سے جاری دھرنے میں شریک ملازمین نے کوٸٹہ شہر میں ریلیاں نکالی حکومت مخالف شدید نعرے بازی کی اپنے پچیس فیصدکے مطالبات کو تسلیم کروانے کیلیے پر امن احتجاج اور دھرناجاری رکھا ہوا ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی ملازمین کے پنڈال میں آکر انکی حمایت کا اعلان کیا۔ قبائلی شخصیات اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔ تمام محکموں کے اس گرینڈ الاؤنس دھرنے کی بھرپور حمایت کی لیکن صوباٸی حکومت کی زِد سمجھ سے بالاتر ہے ۔گزشتہ روز اسمبلی اجلاس میں بھی رکن صوباٸی اسمبلی نے اپنی واسکوٹ اتار کر اسمبلی کے حال میں پھینک دی پھر اپنی کمیز اتانے کی کوشش کی کہ اسمبلی اراکین نے اپوز یشن رکن کوروک لیا لیکن اپوزیشن کے رکن نے اپنا بھرپوراحتجاج کیا اور حکومت کے اس روٸیے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کر وایا۔
اور آج بلوچستان عوامی پارٹی کے اسپیکر صوباٸی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو وزیرے تعلیم یار محمد رند
اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی ملازمین کے دھرنے اور انکے مطالبات کی حمایت کا اعلان کردیا۔ گرینڈ الاٸنس ملازمین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سوموار کے روز سے پورے صوبے کی تمام مرکزی شاہراہوں کو بند کیا جاٸے گا۔ اور تمام ٹریفک کی آمدو رفت کو جام کیا جاٸے گا جس سے پورے صوبے میں آنے والے مسافر۔ مریض شدید مشکلات شکار ہونگے۔
جہاں کوٸٹ شہر پچھلے چھ روز سے جام ہو کر رہ گیا ہے۔ اب پورا صوبہ جام ہونے کی طرف جارہا ہے ۔ جام حکومت کو چاہیے کہ دیگر صوبوں کی طرح ملازمین کے مطالبات کو تسلیم کرے۔
اور انکی تنخواہ میں پچیس فیصد کا اضافہ کرے۔تا کہ ایک عام آدمی جن مشکلات سے دوچارھے اس کی زندگی بحال ہوسکے۔اگر حکومت میں رہنے والے عوام کے اور سرکاری ملازمین کے مساٸل حل نہیں کریں گے کوٸی راستہ نہیں نکالیں گے۔ تو حساب کون دیگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں