مصر میں اخوان المسلمون کے 12 سینئر رہنماؤں کی سزائے موت برقرار

قاہرہ: مصر کی اعلیٰ سول عدالت نے سابق حکمراں جماعت اخوان المسلمون کے 12 سینئر رہنماؤں کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے۔پھانسی کے اس فیصلے کے خلاف اب مزید اپیل نہیں کی جاسکتی اور فیصلے پر مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کے دستخط ہوتے ہی اخوان کے رہنماؤں کو پھانسی دے دی جائے گی۔ الاخوان المسلمون کے جن ارکان کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان میں مفتی عبدالرحمن البر، سابق رکن پارلیمنٹ محمد البلتاجی اور سابق وزیر اسامہ یسین شامل ہیں۔

ستمبر 2018 میں مصری عدالت نے اخوان کے 75 کارکنوں کو پھانسی اور 600 افراد کو قید و بند کی سزائیں سنائی تھیں۔ ان میں سے 44 افراد نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی جن میں سے 31 کی سزائے موت کو عمرقید میں بدل دیا گیا جبکہ 12 کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔ اخوان کے ایک اعلیٰ رہنما عصام الدين محمد حسين العريان‎ کا اگست 2020 میں جیل میں ہی انتقال ہوگیا۔ مصر کے جمہوری طور پر منتخب پہلے صدر محمد مرسی بھی 2019 میں جیل میں وفات پاگئے تھے۔عدالت نے دیگر ملزمان کی قید کی سزائیں بھی برقرار رکھیں جن میں اخوان کے سربراہ یا مرشد عام محمد بدیع کی عمر قید اور محمد مرسی کے بیٹے اسامہ کی 10 سال قید کی سزا بھی شامل ہے۔

اخوان المسلمون کے ان رہنماؤں کو 2013 میں دارالحکومت قاہرہ میں رابعہ چوک پر دھرنے میں شرکت پر پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے لوگوں کو اس دھرنے میں شرکت کی دعوت دی اور تشدد پر اکسایا۔ یہ دھرنا 2013 میں فوج کی جانب سے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے خلاف دیا جارہا تھا۔ فوج نے احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے دھرنے پر فائرنگ کردی جس کے تنیجے میں سیکڑوں مظاہرین جاں بحق ہوگئے تھے۔

اس سے قبل اخوان کے متعدد رہنماؤں کو فوج کے خلاف احتجاج پر پھانسی دی جاچکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مصر میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر تشویش کا اظہار کرتے کہا ہے کہ اس سال 51 افراد کو سزائے موت دی جاچکی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عدالتوں میں چلنے والے ان مقدمات کو مکمل طور پر غیر شفاف قرار دیتے ہوئے مصری حکومت سے سزائے موت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں