بھارتی حکومت نے یاسین ملک کو سزائے موت دینے کا فیصلہ کر لیا

سرینگر: جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے نظربند چیئرمین محمد یاسین ملک کے اہلخانہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہاہے کہ یاسین ملک کو انکے خلاف دائر مقدمہ میں منصفانہ سماعت سے محروم رکھا جارہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی حکومت نے کالعدم لبریشن فرنٹ کے چیئرمین کو دہائیوں پرانے جھوٹے مقدمے میں نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں نظربند کر رکھا ہے۔گزشتہ سال اپریل میں بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے یاسین ملک کو جب گرفتار کیاتو وہ پہلے ہی کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقبوضہ کشمیر کی ایک جیل میں نظربند تھے۔ ان کیخلاف 1990میں بھارتی فضائیہ کے چارافسروں کے قتل کا مقدمہ درج کیاگیا تھا جس کی سماعت جموں کی ٹاڈا عدالت میں جاری ہے اور سی بی آئی مقدمے کی پیروی کر رہی ہے۔ یاسین ملک کیخلاف متعدد مقدمات کی تیزی سے سماعت سے خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ بھارتی حکومت نے پہلے ہی ان کی سزائے موت کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ یاسین ملک کے اہلخانہ نے قطری ٹی وی چینل الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ قتل کے30سال پرانے جھوٹے مقدمے کودوبارہ کھولنے اور تیزی سے اس کی سماعت سے بھارتی قابض انتظامیہ کے خطرناک مذموم عزائم ظاہر ہوتے ہیں۔ مقدمے میں یاسین ملک کی پیروی کرنے والے وکیل طفیل راجہ نے کہاہے کہ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین کیخلاف جھوٹے مقدمے دائر کئے گئے ہیں تاہم انہوں نے کہاکہ وہ کسی قسم کے دباو میں ہرگز نہیں آئیں گے۔ انسانی حقوق کے معروف علمبردار اورجموں وکشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے سربراہ خرم پرویز نے کہاہے کہ مقدمے کی منصفانہ سماعت کا حق عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر آپ کیخلاف اچانک دہائیوں پرانا مقدمہ دوبارہ کھول دیا جاتا ہے اور آپ کو دفاع کا حق نہیں دیا جاتا تو یقینا اس پورے عمل پر سوالہ نشان لگ جائے گا۔آزاد کشمیرکے ایک محقق فیضان بٹ نے کہاکہ جب کشمیری سیاسی نظربندوں کی بات آتی ہے تو بھارتی ریاست کے علاوہ عدلیہ بھی تمام اصولوں اور قوانین کو بالائے طاق رکھ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی تیزی سے سماعت کی جارہی ہے اس سے یہ شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں کہ تاریخ خود کو دوہرانے جارہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں