فورسز کے ہاتھوں بلوچ خواتین کی اجتماعی زیادتی اور مستونگ واقعے کی مذمت کرتے ہیں، بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ مذمتی بیان میں کہا ہے کہ مستونگ میں خواتین اساتذہ کی وین پر فائرنگ اور کیلکور میں فورسز کی جانب سے بلوچ خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ انتہائی دلخراش اور روح کو کھانپ دینے والی عمل ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آج مستونگ میں نامعلوم افراد کی جانب سے ایک سرکاری اسکول کے اساتذہ کی وین پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں چار خواتین اساتذہ زخمی ہوئے ہیں جو نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ انتہائی دلخراش اور ہمارے معاشرے کے روایات کی برعکس ہے۔بلوچ معاشر میں خواتین کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جب کوئی خاتون دو فریقین کے درمیان آجائے تو جنگ بندی کی جاتی ہے لیکن اس طرح کےواقعات بلوچ رویات کو مسخ کرنے کے برابر ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں گذشتہ کئی دہائیوں سے خواتین پر تشدد اور قتل کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ اس سے پہلے بھی سردار بہادر خان یونیورسٹی کے طلباء کو نشانہ بنایا گیا جبکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشنز کے دوران خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا ہے جس کا مقصد بلوچ خواتین کو تعلیم سے دور رکھنا ہے،بلوچ تعلیم کی اہمیت سے واقف ہے اور اپنے خواتین کو تعلیم یافتہ و بااختیار بنانے کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلباء پر تشدد کی گئی ۔اس بات سے واضح ہے کہ سوچھے سمجھے سازش کے تحت بلوچ کو تعلیم سے دور رکھنے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ درایں اثناء ترجمان بی ایس او نے رواں ہفتہ ضلع کیچ کے علاقے کیلکئورمیں فورسز کی جانب سے خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے واقعے کو بھی انتہائی دلخراش اور روح کھانپ دینے والا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ غیرمہذب،غیراسلامی و غیراخلاقی عمل کے ساتھ ساتھ بلوچ ننگ و ناموس اور قومی غیرت کی پامالی ہے۔انہوں نے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے اداروں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر ایکشن لینے کی اپیل کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں