صلہ رحمی

تحریر: انورساجدی
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں علی احمد کرد نے جو آگ لگائی اس کی تپش اشرافیہ ابھی تک محسوس کررہی ہے جبکہ منتظمین نے چند ایسے نام بھی بلائے جو پاکستانی میڈیا پر شجرممنوع ہیں اتنے بڑے فورم پر وہ بھی لاہور میں پی ٹی ایم کے لیڈر منظور پشین اور گلگت بلتستان کی عوامی تحریک کے رہنما باباجان کو پہلی مرتبہ اپنے خیالات کے اظہار کاموقع دیا گیا منظور پشین کا خطاب بنیادی طور پر تکنیکی تھا اور ریاستی سیاست سے اس کا تعلق نہیں تھا لیکن جس پرسوز انداز میں انہوں نے فاٹا اور خاص طور پر وزیرستان میں جاری مظالم بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور زیادیوں کا کیس پیش کیا انہوں نے ایسے انکشافات کئے کہ لوگ حیران رہ گئے پاکستانی میڈیا پر عوام اور خاص طور پر چھوٹے صوبوں کے لوگوں کے مصائب اور مشکلات کو منظر عام پر نہیں لایاجاتا پاکستانی میڈیا ون وے ٹریفک کی طرح چلتا ہے اس کی خبروں کا محور پاکستان کے بڑے شہر ہیں اور وہ بھی سب سے بڑے صوبہ کے شہر اگر بلوچستان فاٹا اور گلگت بلوچستان میں بڑی سے بڑی قیامت آجائے تو بھی یہ میڈیا خاموش رہتا ہے یا سرسری تذکرہ کرکے نظرانداز کردیتاہے۔
منظورپشین،محسن داوڑ،افراسیاب خٹک اور ڈاکٹرمالک نے جن مسائل کی نشاندہی کی اس سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگا ایک تشنگی یا کمی یہ دیکھی گئی کہ اگرچہ ڈاکٹرمالک نے ساحل ووسائل پراختیار اورایک نئے عمرانی معاہدہ کا مطالبہ کیا لیکن وہ منظور پشین کی طرح بلوچستان میں جاری انسانی المیہ کو کاحقہ اجاگر نہ کرسکے شائد کوئی سیاسی مصلحت حائل تھی یا کسی مرّٰدہ جانفرا کی وجہ سے انہوں نے ریڈلائن کراس نہیں کی۔
خلاف توقع ریڈلائن تو مسلم لیگ ن کے سپریم لیڈر نوازشریف نے بھی کراس نہیں کی اگرچہ انہوں نے فیصلہ کن جدوجہدپر بھی زوردیا لیکن انہوں نے آر یا پار کی بات نہیں کی غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ لندن میں نوازشریف سے رابطے جاری ہیں اور انہیں امید دلائی جارہی ہے کہ تبدیلی کے بعد یا آئندہ انتخابات میں غلطیوں کاکنارہ اداکرکے انہیں دوبارہ موقع دیاجائیگا ایک اہم بات یہ تھی کہ نوازشریف کا خطاب شیڈول میں شامل نہیں تھاان کو اظہارخیال کا موقع دینا اچانک فیصلہ تھا جس کی وضاحت بار کے نومنتخب صدر بھون صاحب نے کی نوازشریف کو بلانے سے حکمران جماعت پر گویا بجلی گرگئی ان کا ویڈیو لنک بند کردیا گیا جس پرعاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی منیزے جہانگیر نے کہا کہ تاریں تو چوہے کاٹتے ہیں لیکن منیزے نے یہ کہہ کر کئی لوگوں کے کان کھڑے کردیئے کہ مستقبل کی امیدیں نوازشریف سے وابستہ ہیں یہ جانبداری کا کھل کر اظہار تھا گوکہ ہرمکتبہ فکر کو مدعو کیا گیا تھا لیکن دو روزہ کانفرنس پر ن لیگ کی چاپ نمایاں تھی تحریک انصاف نے یہ کہہ کر آنے سے گریز کیا کہ ایسے فنکشن میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں ایک مفرور ملزم کو خطاب کا موقع دیا گیا ہو پیپلزپارٹی کی نمائندگی کم کرکے قمرالزمان کائرہ تک محدود کردیا گیا تھا جبکہ مولانا کو موقع دینے کی بجائے سپریم کورٹ بار کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا اگرمولانا خطاب کرتے تو ایک سماں بندھ سکتا تھا۔
ویسے معاملات عجیب وغریب ہیں اپوزیشن روز لانگ مارچ اور تبدیلی کیلئے تحریک چلانے کا اعلان کرتی ہے لیکن تحریک چلاتی نہیں ہے کیونکہ ملک کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں اپوزیشن انہیں دیکھ کر گھبراگئی ہے اور اسے ڈر ہے کہ اگرموجودہ حکومت کو ہٹایا گیا تو معاملات مزید بگڑجائیں گے ڈوبتی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائیگا یہ سوال بھی درپیش ہے کہ اگرعمران خان کو ہٹایاجائے تو کس کو ان کی جگہ لایاجائے آیا ان ہاؤس چینج پر زور دیا جائے یا نئے انتخابات کا مطالبہ کیاجائے غرض کہ اپوزیشن بہت کنفیوذ ہے اس سے کوئی ایجنڈا نہیں بن پارہا اگرچہ مولانا نے پشاور کی ریلی میں مقتدرہ کو بہت تڑی لگائی لیکن لوگوں نے ریلی میں شرکت نہ کرکے مولانا کی تڑی کے اثرات ذائل کردیئے۔
ایک حقیقت جو چھپانے سے بھی نہیں چھپ رہی وہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے بھی تمام رہنما رحم طلب نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ شائد اوپر والے صلہ رحمی سے کام لیکر ان کیلئے بھی کوئی گنجائش نکال لیں اس کمزوری نے انہیں ایک عوامی تحریک شروع کرنے سے روک رکھا ہے مولانا اور ن لیگ مل کر لوگوں کو جلسوں اور ریلیوں پر ٹرخارہے ہیں کیونکہ ان کے درپردہ مذاکرات جاری ہیں حالانکہ ان رہنماؤں نے بار بار دھوکہ کھانے کے باوجود کوئی سبق نہیں سیکھا مولانا کے گزشتہ لانگ مارچ اور دھرنے کو یہ کہہ کر ختم کروایا گیا تھا کہ مارچ2021ء میں نئے انتخابات کروائے جائیں گے مولانا نے اس بات کو بھی ہضم کرلیا نوازشریف سے کہا گیا تھا اگروہ توسیع کے حق میں ووٹ دیدیں تو ان کے تمام مقدمات ختم کردیئے جائیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا اس کے باوجود یہ معزز لیڈر صاحبان ایک بار پھر دھوکہ کھانے کیلئے تیار ہیں۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قانون منظور کرنے سے پہلے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ ایک پیج باقی نہ رہا اور یہ کہ اختلافات شدید ہوگئے ہیں لیکن اچانک ٹیلی فون کالز کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں حکومت نے19ووٹوں کی اکثریت سے کئی درجن بل منظور کروالئے اپوزیشن کا خیال تھا کہ شکستہ پیج کی وجہ سے وہ حکومت کا راستہ روک دیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا اپوزیشن کے سارے اندازے غلط نکلے ہاں یہ بات صحیح ہے کہ طاقت کے عناصر کے ساتھ بات چیت ترک نہیں کی جاسکتی کیونکہ تبدیلی تو انہوں نے لانی ہے ریلیف انہوں نے دینا ہے اپوزیشن جانتی ہے کہ وہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر اپنی کوئی بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں۔لہٰذا چاروناچار بات چیت میں حصہ لینا پڑتا ہے رابطے جاری رکھنے پڑتے ہیں ایک اور بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ اپوزیشن روز شیرآیا شیر آیا کا نعرہ لگاتی ہے اور کچھ کرتی نہیں اس لئے عوام کا ان پر بھی اعتماد اٹھ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں اور احتجاجی ریلیوں میں عوام کی شرکت کم ہوتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت ن لیگ کو جو مقبولیت حاصل ہے وہ اسے عام انتخابات سے قبل کسی مہم جوئی کی نذر نہیں کرنا چاہتی اس کے اکابرین کا خیال ہے کہ2023ء کے انتخابات میں اس کی کامیابی یقینی ہے لہٰذا اس سے پہلے حکومت کی تبدیلی سے اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے اگریہ لوگ واقعی حکومت کو ہٹانے میں مخلص ہیں تو ادھر ادھر کی ہانکنے کی بجائے ایک فیصلہ کن مارچ اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کرتے اگروہ مخلص ہیں تو جائیں اسلام آباد یا راولپنڈی لاکھوں لوگ اپنے ساتھ لے جائیں اور مطالبات کی منظوری تک دھرنے پر بیٹھیں انہیں ڈر کس بات کا ہے۔
اگروہ آئندہ سال مارچ تک اسی طرح خوفزدہ رہے تو بازی ان کے ہاتھ سے نکل جائیگی اور کیا بعید نئی صف بندی میں حکمران جماعت زیادہ زور ہوجائے اور اگر ای وی ایم مشین کے ذریعے انتخابات ہوئے تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے کیونکہ اس کے ذریعے دھاندلی کرنا بہت آسان ہے اگرچہ پاکستان جیسے ملک میں ای وی ایم کارائج کرنا مشکل ہے لیکن حکومت تو پورا زور لگائے گی کیونکہ اس کے ووٹوں کی تعداد بہت کم ہے وہ جیتے گی کہاں سے اس کا سارا دارومدار تو جادوئی مشین پر ہے چونکہ اس کی ترمیم منظور ہوچکی ہے لہٰذا جب تک پارلیمنٹ کے اندر اس قانون کو تبدیل نہیں کیاجاتا تو یہ موجود رہے گا اسی طرح دھاندلی کا اس سے بھی بڑا ذریعہ اوورسیز پاکستانیوں کے ایک کروڑ ووٹ ہیں جس کا حصول تحریک انصاف کیلئے بہت آسان ہے اگریہ ووٹ اسے مل جائیں تو اس کی دوبارہ کامیابی کوکوئی نہیں روک سکتا اس طرح اپوزیشن کئی حوالوں سے ایک نازک مقام پر کھڑی ہے اور اسے واضح لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا ورنہ جو ڈرگئے وہ مرگئے کے مصداق اس کا مستقبل بھی روشن دکھائی نہیں دیتا۔
ایک اور عجیب بات یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ بعض ن لیگی زعما پوری طرح کوشش کررہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا راستہ روکا جائے تاکہ پی ڈی ایم ایک نہ ہوجائے اس عمل کے پیچھے کیا بات کارفرما ہے یہ کوئی نہیں جانتا اس کا کھوج خود پیپلزپارٹی والوں کو لگانا پڑے گا۔
ن لیگ پر امید ہے کہ میاں نوازشریف اور ان کی دختر نیک اختر کی سزاؤں کیخلاف انہوں نے ایک کامیاب بیانیہ بنالیا ہے جسٹس شمیم اور ثاقب نثار کی آڈیو لیک کو زوروشور کے ساتھ پیش کیاجارہا ہے لیکن اس کا اثر اوپر والوں پر تو نہیں ہوگا البتہ عوام کی ہمدردیاں ضرور بڑھیں گی کیونکہ جو کچھ ہوا اوپر والوں کو پہلے سے پتہ ہے مقدمات یا سزا کیخلاف اپیل پر اس کا کیااثر پڑے گا یہ بات جلد اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں سے ظاہر ہوجائیگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں