کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی

تحریر: انورساجدی
پی ڈی ایم کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوکر اگلے ماہ تک موخر ہوگیا ہے اس کی وجہ یہ شنید میں آئی ہے کہ ن لیگ ن نے مولانا سے کہا ہے کہ فی الحال اسے حکومت ہٹانے کی تحریک سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کی ساری توجہ میاں نوازشریف اورمریم نواز کی بریت کے کیس پر مرکوز ہے اس مقصد کیلئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک کی گئی ہے اور جلد ایک ویڈیو بھی آنے والی ہے جہاں تک آڈیو کا تعلق ہے تو یہ جعلی ہے اور جلد فیک ثابت ہوجائیگی البتہ وڈیو کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا شائد وہ اصلی ہو مسلم لیگ ن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بریت کیس کی سماعت کے موقع پر گلگت بلتستان کے سابق چیف جج مسٹرشمیم کا ایک بیان حلفی عام کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ثاقب نثار نے ان کے سامنے ایک جج کوفون کرکے کہا تھا کہ2018ء کے انتخابات کے موقع پر نوازشریف اور ان کی بیٹی رہا نہیں ہونے چاہئیں اس واقعہ کے چند روز بعد معتوب صحافی احمد نورانی نے امریکہ سے ثاقب نثار کی مذکورہ آڈیو لیک کی اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس کی فرانزک رپورٹ بھی حاصل کی ہے لیکن اس آڈیو کی صحت مشکوک ہے۔
ن لیگ دراصل کافی عرصہ سے نظام عدل اور اعلیٰ جج صاحبان کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کررہی ہے اس کا آغاز اس نے احتساب عدالت کے جج ارشد کی آڈیو اور ویڈیوسے شروع کی تھی پارٹی نے اس مقصد کیلئے ایک وفادار کارکن ناصر بٹ کی خدمات حاصل کی ہیں جو لندن میں میاں صاحب کے ساتھ مقیم ہیں جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ ویڈیو بھی انہی کے پاس ہے وہ صبح وشام محترمہ مریم نواز سے ہدایات لیتے ہیں اگردیکھاجائے تو ن لیگ نے عدلیہ اور بعض جج صاحبان کے بارے میں اچھا خاصابیانیہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اس بنیاد پر اسے اعلیٰ عدلیہ سے ریلیف ملے نا ملے لیکن ن لیگی کارکن اور عوام کا ایک بڑا حصہ یہ باور کررہا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ اس وقت کے ٹرائیکا نے مل کرناانصافی اور زیادتی کی ہے اسکو زبردستی سزائیں دے کر اقتدار سے فارغ کیا گیا تھا تاکہ جعلی الیکشن کے ذریعے خان صاحب کو برسراقتدار لایاجاسکے آثار بتارہے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے تک ن لیگ اپنا دباؤ برقرار رکھے گی جہاں تک ثاقب نثار کا تعلق ہے تو ان کا عدالتی کیریئر قابل رشک نہیں ہے وقت نے انہیں طرفدار یک طرفہ اور متنازعہ جج ثابت کیا ہے ان کے بے شمار فیصلے عدل وانصاف کے پیمانے اور میرٹ پر پورا نہیں اترتے نوازشریف کو ہٹانے میں ان کے کردار کو اس طرح دیکھاجائے گا کہ جس طرح کہ جسٹس محمد منیر انورالحق،مولوی مشتاق اور کوڈونسیم حسن شاہ کے کردار کو تاریخ میں دیکھاجارہا ہے لیکن اس کے باوجودہ وہ اتنے پاگل نہیں تھے کہ چیف جسٹس ہوکر بھی وہ ڈیجیٹل دور کے نازک موقع پر کسی اور جج کی موجودگی میں ہدایات جاری کرتے ہوں جسٹس ثاقب نثار کو متنازع بنانا ایک جج پر حملہ نہیں ہے بلکہ اس دور کے پوری سپریم کورٹ پر حملہ ہے بلکہ ان فیصلوں میں شامل کم از کم تین جج صاحبان اس وقت بھی عدلیہ کی کرسی پر بیٹھے فیصلے کررہے ہیں ن لیگ کا خیال ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ دینے والے جج صاحبان یامقدمہ کی نگرانی کرنے والے لوگ متنازع ہوگئے تو میاں نوازشریف کی نااہلی کا پورا عمل ہی متنازع ہوجائے گا اور اس کی بنیاد پر شائد ان کی بریت ممکن ہوجائے۔
ن لیگ کی اس مہم کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ میاں صاحب اور ان کے خاندان پر بدنامی کے جو داغ لگے ہیں وہ مٹ جائیں بلکہ آئندہ انتخابات میں میاں صاحب باعزت بری ہوکر چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن جائیں اگرچہ یہ ایک سہانا خواب ہے لیکن اس کی مکمل تعبیر ملنا تقریباً ناممکن ہے۔اس کے باوجود کہ عمران خان کی حکومت کی نااہلی بدانتظامی اورمہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا ہے اگررکاوٹ نہ ڈالی جائے تو یہ جماعت ممکنہ طور پر 2023ء کے انتخابات میں اچھی خاصی کامیابی حاصل کرے گی گوکہ ن لیگ سے درپردہ رابطے اور مذاکرات بھی جاری ہیں لیکن مقتدرہ کے ایک حصے کا خیال ہے کہ اگر اس جماعت کو ایک بار پھر کامیاب ہونے دیاگیا تو وہ انتقامی کارروائیوں پر اترآئیگی جس کی زد میں ادارے بھی آئیں گے لہٰذا بھرپور کوشش کی جائے گی کہ ن لیگ کو موجودہ سطح پر رکھاجائے تاکہ وہ مکمل اکثریت حاصل کرکے حکومت نہ بناسکے ن لیگ کو خفیہ بات چیت پر لگاکر مقتدرہ اپنے منصوبوں پرعمل پیرا ہے وہ ملک میں ایک کمزور مخلوط حکومت بنانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے تاکہ کوئی دوتہائی اکثریت والی حکومت خطرہ نہ بن سکے کوئی یقین کرے یا نہ کرے مقتدرہ اس تجویز پر غور کررہی ہے کہ تحریک انصاف پیپلزپارٹی ق لیگ اور دیگر جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت کا اہتمام کیاجائے اب کے بار وہ پشتونخوا میں مولانا کی جماعت کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں اور ان کا وعدہ ہے کہ بلوچستان میں جے یو آئی کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائیگی تاکہ2008ء کی طرح ایک کل جماعتی حکومت تشکیل پاسکے۔
اگردیکھاجائے تو ن لیگ نے اپنی ترجیحات بدل کر ایک بار پھر مولانا کو دھوکہ دیا ہے اس کی وجہ سے لانگ مارچ اور دھرنے کا پروگرام موخر کردیا گیا ہے ن لیگ کے بعض زعما کا خیال ہے کہ جب تک شفاف انتخابات کی گارنٹی نہیں دی جاتی حکومت کی تبدیلی یا نائے انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بات توصحیح ہے لیکن یہ پہلے سوچنا چاہئے تھا اور اس اعلان کی کیا ضرورت تھی کہ دسمبر میں حکومت کیخلاف تحریک شروع کی جائے گی حالات بتارہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے اگلے اجلاس میں بھی فیصلہ کن فیصلے نہیں ہونگے اگر بات آئندہ سال پر چلی گئی تو پھر تحریک کی نوبت نہیں آئیگی کیونکہ ایک سال بعد تو عام انتخابات سرپرآجائیں گے اور کسی بھی جماعت کو یہ موقع نہیں ملے گا کہ وہ الیکشن کی تیاری کے سوا کوئی اور کام کرے البتہ حکومت نے جو انتخابی اصلاحات کی ہیں جن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو ای ووٹنگ کا حق دینا شامل ہے یہ آئندہ انتخابات میں اپوزیشن کے گلے میں پھندا ثابت ہونگے بہتر ہوگا کہ اپوزیشن اس کیخلاف تحریک چلائے اور باقاعدہ دھمکی دے کہ اگر حکومت نے آئینی ترامیم واپس نہ لئے تو اپوزیشن عام انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی اور ان میں حصہ نہیں لے گی اگراپوزیشن نے واقعی بائیکاٹ کردیا تو ان انتخابات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور دنیا انہیں تسلیم نہیں کرے گی۔
جہاں تک ایک دوسرے کیخلاف موجودہ ڈیجیٹل دور میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے تو پروپیگنڈہ کی حد تک یہ ٹھیک ہے لیکن اگر اسے کردارکشی کیلئے استعمال کیا گیا تو کیچڑ اور گند اچھالنے کی سونامی آجائے گی ن لیگ کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں احتیاط سے کام لے کیونکہ فی زمانہ فوٹو شاپ اور دیگرتکنیک سے کسی کے بھی قابل اعتراض ویڈیوز یاتصاویر بنائی جاسکتی ہیں جس کا نتیجہ کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں نکلے گا اگرسچ کا کھوج لگایاجائے تو جعلی تصاویر جاری کرنے کا سلسلہ ن لیگ نے اس وقت شروع کیا تھا جب وہ ضیاؤ الحق کی پسندیدہ جماعت تھی اس جماعت کے لوگوں نے بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی جعلی تصاویر بناکر جاری کردی تھیں حالانکہ وہ ڈیجیٹل دور نہیں تھا لگتا ہے کہ ن لیگ اپنا یہ پرانا مشغلہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے جدید ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہے فیک نیوز فوٹو شاپ جعلی ویڈیوز روزدیکھنے کو ملتی ہیں خود ن لیگ کے رہنما اور سابق گورنر زبیر عمر کی انتہائی ناشائستہ ویڈیوز منظر عام پرآچکی ہیں اس صورتحال میں تمام سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ ماحول میں شائستگی قائم رکھیں اور عامیانہ مقاصد اور مخالفین کو زچ کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں سے گریز کریں۔
اگرچہ ن لیگ چاردہائیوں کی تجربات سے بہت سبق حاصل کرچکی ہے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ مخالفین کی کردار کشی سے لیکر چھانگا مانگا تک جو بھی غلط روایات ڈالی گئیں اس کی بانی ن لیگ ہے اب جبکہ وہ مقبولیت کے عروج پر ہے تو اسے ساری توجہ مقبولیت کو برقرار رکھنے اور آئندہ انتخابات میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ن لیگ کے کیا کہنے اس نے اپنے پچھلے دور میں دوانتہائی متنازع فیصلے کئے ایک اور مدت کی توسیع اور مارگلہ پہاڑوں کی ملکیت سے دستبردار ہونا اس کے باوجود اگروہ سویلین بالادستی کا رونا رورہی ہے تو یہ کوئی منطقی بات نہیں ہے اس سے لگتا ہے کہ اسٹیٹس کو کے اسٹیک ہولڈر صرف اس بات پر لڑرہے ہیں کہ آئندہ کس کی ہوگی ریاست میں بنیادی تبدیلی لانے اور اسے فلاحی بنانے میں کسی بھی جماعت کو دلچسپی نہیں ہے اس سے یہ بات پختہ ہوجاتی ہے کہ موجودہ سیاسی لڑائی پنجاب کی اشرافیہ کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے ریاست کس تباہی کی طرف جارہی ہے اس بارے میں کوئی سوچ موجود نہیں ہے کسی کو فکر نہیں کہ آئین اور جمہوریت کا کیابنے گا یہ پرواہ بھی نہیں کہ معاشی اعتبار سے ریاست قرن افریقہ کے پسماندہ اور لاطینی امریکہ کے بنانا ری پبلکس کے برابر پہنچ گئی ہے اگر یہی حال جاری رہا تو مستقبل کیا ہوگا جو کچھ ہوگا وہ دیوار پر صاف نظر آرہاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں