ویلاے منڈا اور ڈی جی خان کے بلوچ

عبدالقیوم بزدار
ویلا ے منڈنے نے یوٹیوب پرایک ناشائستہ اورنازیبا ویڈیوڈالی جس میں انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ جاہل ہیں دس پندرہ دن تک نہیں نہاتے اور نہ ہی صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں
وہ مزیدکہتے ہیں کہ پگڑی باندھتے ہیں اور وہ بھی میلی وہ کوٹ ادو جانے سے پہلے خیرات کرتے ہیں کیونکہ اسے غیرملک سمجھتے ہیں اوربچے کی واپسی کی دعا کرتے ہیں یہاں کے لوگ دیہاتی اورسادہ ہیں بندوق اوربم سے ڈرتے ہیں اور چھوٹی موٹی باتوں پہ لڑتے اورمقدمہ کرتے ہیں جس پرڈی جی خان کے بلوچوں نے سخت جوابی کارروائی کی اور انہیں کچھ ناشائستہ افراد نے بری گالیاں دیں اورانہیں جان سے مارنے کی بات بھی کی الامان الحفیظ جوابی کاروائی پر موصوف اوراس کیساتھی نے معافی مانگی جس پرہم ان کے شکرگزارہیں انہوں نے معذرت کرکے بڑے پن کامظاہرہ کیا اگراب اس واقعہ کاتجزیہ کریں تواس میں صاحب ویڈیو کامقصد کسی پر کیچڑاچھالنا نہیں تھا بلکہ ہنسانا تھا جس پرانہیں رونا پڑا ان کی آخری بات سے مکمل اتفاق ہے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑتے ہیں جس کی واضح مثال نان ایشو ویڈیو تھی
اس لیے!!! ان تمام غیرت مند بلوچوں کے نام!!!
کہ اپنے آپ کواکیلے بلوچ کہلوانا بڑی بات نہیں ہے بلکہ قوم کے لیے نئے راستے وا کرنا بلوچیت اوربڑی بات ہے اپنی ثقافت سے پیار کرنا اوراس میں اضافہ بلوچیت ہے اپنی زبان سے لگن سے بلوچیت ہے
اللہ بخشے!!!ہم تووہ لوگ ہیں کہ اپنی دونوں زبانوں بلوچی اورسرائیکی میں اپنی تاریخ لکھ نہیں پاتے اور نہ ہی حمل و منہاز کوجانتے ہیں اور نہ ہی بالاچ اور داد شاہ سے ہماری شناسائی ہے
نہ ہی ہم گل خان نصیرسے واقف ہیں اور نہ ہی ہم عبداللہ جان والے بلوچستان سے واقف ہیں
نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں مست اور سموں کون تھے؟
نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں غازی خان کون تھا؟؟
نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں چگھا وپلیھا کون تھے؟؟
نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں کیسے ہم نیاپنی یادداشت کے خانے سے بلوچ تاریخ کے پرانے ادوارکومٹادیا؟نہ ہی ہم یہ جانتے ہیں کہ ڈی جی خان اور راجن پور بلوچستان کے حصے تھے بلوچستان کیسانجھے تھے ان کے اورہمارے دکھ دردایک تھے اگران پہ کوئی مصیبت گزرتی توہم سائیں ہوتے اورجب ہم پہ آفت آتی تو وہ ہمارے دست وبازو بنتے لیکن اب ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اپنے ہی وطن کے حالات سے بیخبرہیں اوراپنے ہی وطن ڈیرہ غازی خان اور بلوچستان میں ظلم وستم کانشانہ بن رہے ہیں کبھی ہمیں پولیس جعلی پولیس مقابلوں میں مارتی ہے توکبھی ہمارے معصوم بچوں کی ریاستی سلامتی کے نام پرقربانی دی جاتی ہیں۔
کیا کبھی ہم نے ان مظالم کیخلاف بات کی؟؟
یقینا نہیں۔۔۔
کیاکبھی ہم نے ابترتعلیمی صورتحال کی بات کی؟؟
یقینا نہیں
کیا کبھی ہم نے اپنے وسائل پہ حق کی بات کی؟؟
یقینا نہیں
کیاکبھی ہم نے ڈی جی خان اورراجن پور کی بلوچستان میں شمولیت کی بات کی؟؟
یقینانہیں
کیا کبھی ہم نے ایسی پلیٹ فارم بنائی جس کی مدد سے ہم اپنے بلوچ ثقافت کومحفوظ بنانے کیساتھ اس میں آضافہ کرکیاسے خو بصورت بنائیں اس خوبصورتی میں کتابیں پڑھنا،لکھنا اور نئے تخلیقی مواد کااضافہ شامل ہے
کیا کبھی ہم نیایسی بات کی کہ ایک ایسی پلیٹ فارم بنائیں جس کی مددسے بلوچی کو ضلع کے ہرتعلیمی ادارے میں لازمی مضمون کی حیثیت دلواسکیں تاکہ ہمارے بچے بلوچی زبان میں دیئے گئے اپنی تاریخ کے ساتھ اپنے ابا کیاساطیری ادب سے واقفیت حاصل کرسکیں
کیا ہم نے ڈی جی خان اورراجن پورکی بلوچستان میں شمولیت کی بات کی اور نہ ہی اپنے حقوق کی بحالی کی بات کی صرف اکیلے بلوچ نام پہ فخر کرتے رہے اکڑتے رہے لیکن بلوچ تاریخ میں کسی نئی پیش رفت کی طرف دھیان نہیں دی گئی جس کی وجہ سے بلوچ قوم دردر کی ٹھوکریں کھارہی ہے کیونکہ نہ ان میں اتحاد ہے اور نہ ہی تخلیقیات زندہ ہے جس کی بدولت وہ اپنے آپ کودنیاکے آگے منواسکیں۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہوکرنئی سحر تراشنے اوربننے کے لیے ایسی پلیٹ فارم بنائیں جوہماری تاریخ کومحفوظ کرے اور ہماری ایک نئی تاریخ مرتب کرے جس میں ہم بلوچستان کا حصہ ہوں اور بلوچستان کے سانجھے ہوں اور اپنی تاریخ اوثقافت کے امین ہوں اور ان میں برابر تخلیق کاسفر بھی جاری رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں