صدارتی نظام قطعاً قبول نہیں، حاجی لشکری رئیسانی

کوئٹہ:سینئر سیاستدان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ صدارتی نظام قطعاً قبول نہیں، صدارتی نظام کی نئے بحث کو ملکی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے چھیڑا گیا اس بحث کوختم ہونا چائیے۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ 73 سالوں سے پاکستان ریاستی اوربین الاقوامی قوتوں کی ڈرامائی سازشوں کا مرکز رہا ہے، غیروں کے اشاروں پر کئے جانے والے تجربات نے یہاں بسنے والی قوموں کے سیاسی عمل،اخلاقیات کو بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب خطے میں نئے حالات ابھر رہے ہیں پاکستان میں مشکوک انداز سے صدارتی نظام کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق آمرانہ ادوار میں کولڈ وار کے دوران جمہوری حکومت کو ختم کرکے جنرل ضیاء الحق کو اسلام کے نام پر مسلط کیا گیا اس کے نتیجہ میں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک بہت بڑی جنگ چھڑی جس کے اثرات پورے ملک پر پڑے اور آج بھی ملک بحرانوں سے دوچار ہے اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کو بھی بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت لا یا گیا اب ایک مرتبہ پھر سے اسٹیبلشمنٹ اور اس کے گونگے ممبران پارلیمنٹ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے،ایک سنجیدہ سیاسی عمل اور اجتماعی فیصلوں کی بجائے ایک طبقہ اور افراد اپنے مسلط کردہ ایجنڈے کو 22 کروڑ عوام کے ملک پر تھوپ کر ملک کو ایک نئے بحران کی طرف لے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ جیسے جنرل ضیاء الحق کے نام نہاد اسلامی نظام اور جنرل مشرف کی روشن فکری نے ایک بہت بڑی قتل وغارگیری کا راستہ ہموار کیا اب اسٹیلشمنٹ اپنے بین الاقوامی آقاؤں کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے کیلئے صدارتی نظام کی بحث کو چھیڑ کر ملک کو ایک بہت بڑے آئینی بحرا ن سے دوچار کرنا چاہتی ہے اس فیڈ ریشن میں صدارتی نظام قطعاً قبول نہیں اس کی بھر پور مخالفت کی جائیگی،۔انہوں نے کہا کہ صدارتی نظام اس وقت ملک کا موضوع بحث نہیں، ملک میں ایک بااختیار پارلیمنٹ کی تشکیل،پارلیمنٹ کے اندر اداروں کو بااختیار بنانا،سنجیدہ شفاف عمل کو آگئے بڑھانا،سیاسی عمل سے اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کو روکنا، بڑھتی آبادی جس سے معاشی معاشرتی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں اس کو کنٹرول کرنا، ملک سے کرپشن چور بازاری افراتفری فرقہ واریت کا خاتمہ موضوع بحث ہونا چائیے تاکہ باقی مہذب اور جمہوری ممالک کی طرح ٰیہاں کی سیاسی جماعتیں،سیاسی کارکن آزادانہ سوچ کیساتھ آئندہ کیلئے قومی پالیسیاں مرتب کریں، یہ نہیں کہ ایک شخص کے عہدے کو صدارت کی بنیاد پر رکھا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک سے بے روزگاری، معاشی زوال کے خاتمے کیلئے مل بیٹھ کر سوچنا چائیے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک بہت بڑی سازش ہورہی ہے جوخطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں