فارن فنڈنگ کیس ،ظاہر شدہ اکاﺅنٹس سے پیسہ منتقل ہونا قابل غور ہے،چیف الیکش کمشنر
اسلام آباد :پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس میں چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیئے کہ ظاہرشدہ اکاﺅنٹس سے پیسہ منتقل ہونا قابل غور بات ہوسکتی ہے جبکہ وکیل اکبر ایس بابر نے کہاہے کہ اسکروٹنی کمیٹی نے اپنے کام کا حق ادا نہیں کیا۔الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت میں اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے اپنے دلائل مکمل کیے، پی ٹی آئی کے وکیل انورمنصور 13 اپریل کو دلائل کا آغاز کریں گے۔وکیل پی ٹی آئی انور منصور نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ اکبر ایس بابر کے حق دعویٰ پر کیس ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، ہائیکورٹ نےدرخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے کل مقررکی ہے، ممبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی نے کہا کہ ہائیکورٹ کا حکم نامہ ہمارے علم میں ہے۔اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے سماعت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ظاہر نہ کردہ اکاﺅنٹس سے رقم پی ٹی آئی کے ظاہر کردہ اکاﺅنٹس میں آئی ہے، پی ٹی آئی حساب نہ دے سکی تو تمام رقم ضبط ہونی چاہیے، کوئی پاکستانی بھی اپنی غیرملکی کمپنی سے فنڈنگ نہیں کرسکتا۔احمد حسن ایڈوکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو349 غیرملکی کمپنیوں سے فنڈنگ ہوئی،اسکروٹنی کمیٹی نے کئی افراد کو بظاہر پاکستانی قرار دیا ہے، بظاہر پاکستانی کی سمجھ نہیں آئی، کوئی پاکستانی ہے یا نہیں، واضح نہیں کیا گیا،پی ٹی آئی کو25 کروڑ روپے کیش کس نے دیئے کچھ معلوم نہیں۔وکیل احمد حسن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مطابق انہیں ملک کے اندرسے 16 لاکھ ڈالر فنڈز ملے، چیف الیکشن کمیشن نے کہا کہ اب تو شادیوں میں بھی روپے کی جگہ ڈالر پھینکے جاتے ہیں جواب میں وکیل احمد حسن نے کہا کہ کسی ایسی شادی کا علم ہو تو ضرور بتائیے گا، میں بھی جانا چاہتا ہوں۔اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ بیرون ملک سے پیسے بھیجنے والوں کے نام تک نہیں بتائے گئے، سعودی عرب اور یو اے ای میں تو سیاست ہو ہی نہیں سکتی، عرب ممالک سے سیاسی پیسہ بینک کے ذریعے نہیں آسکتا،تمام رقم بینکوں سے آئی اور پارٹی اکاونٹس میں گئی۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آسٹریلیا، ناروے یا کسی اور ملک سے لوگ پیسے بھیجتے ہیں تو کیا مسئلہ ہے؟ پارٹی پیسہ جمع کرکے پاکستان بھیجے تو اس میں کیا غلط ہے؟وکیل اکبر ایس بابر نے کہا کہ فنڈ دینے والوں کی تفصیل بھی ہونی چاہیے۔


