اہلیان مشکے کی اپیل

ہم اہلیانِ مشکے کو یہ اپیل اپنے حلقہ کے قومی صوبائی اسمبلی کے ممبران، میر احسان ریکی، صوبائی اسمبلی کے ممبر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سے کرنا چاہیئے، میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کے والد محترم 35 سال سے ہماری نمائندگی کرتے چلے آ رہے ہیں ہمیشہ حکومت اور وزیر رہے ہیں، میر عبدالقوس بزنجو وزیر حیوانات سے ڈپٹی اسپیکر، اسپیکر، وزیر اعلیٰ رہا ہے، پھر اسپیکر سے وزیر اعلیٰ بلوچستان ہے، تحصیل مشکے جناب کے فنڈز اور نظروں سے نظر انداز رہا ہے، بیچارے عوام زندگی کے جو بنیادی سہولیات، تعلیم، صحت، سڑک، بجلی، پانی، گیس دوسرے سہولیات سے محروم رہے ہیں، آج تک موصوف کو علم نہیں مشکے کے عوام، ان کے حلقے کے لوگ کن مشکلات، تکالیف سے دوچار زندگی گزار رہے ہیں، ان کے اہم مسائل کیا ہے، اس وقت مشکے عوام کے اہم مسائلوں میں سے اہم مسئلہ سڑک نہ ہونے کا ہے، مشکے کو بلوچستان کے دوسرے اضلاع، تحصیلوں سے ملانے والی ایک ہی واحد سڑک مشکے سے گریشہ کراس سی پیک روڈ تک 70 کلو میٹر ہے، 70 کلو میٹر کا سفر کم از کم 40 منٹ، اور کرایہ 70 روپے ہونا چاہیے، جی نہیں، 70 کلومیٹر سفر 7 گھنٹے، پبلک ٹرانسپورٹرز 500 نہیں، 700 نہیں ایک ہزار روپے کرایہ لے رہے ہیں، بلوچستان میں جتنے اضلاع، تحصیلیں ہیں، چلنے والے پبلک ٹرانسپورٹرز جدید، آرام دہ، اے سی بسیں، ویگن چلتے ہیں، ملک کا واحد تحصیل، تحصیل مشکے میں چلنے والے پبلک ٹرانسپورٹ کی جگہ پرانی ماڈل 80، 85، 90، ماڈل کے پک ایپ چھوٹی گاڑیاں چلتے ہیں، بہ یک وقت یہ ٹرانسپورٹرز، گڈز کی جگہ استعمال ہو رہے ہیں، مشکے ٹو کراچی براستہ آواران 430 کلو 25 سو روپے کرایہ ہے، مشکے ٹو آواران 80 کلومیٹر ایک ہزار روپے، ٹو نال 100 کلومیٹر ایک ہزار روپے، مشکے ٹو گریشہ 70 کلو میٹر ایک ہزار روپے کرایہ ہے، ایک اور بات بتاتے چلیں، مشکے کے عوام کے نصیب میں دو چیزیں نہیں، اپنے مریضوں کو کوئٹہ، کراچی کے سرکاری، پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کروانا، اس لیے پک ایپ گاڑیاں 30 سے 40 ہزار روپے کرایہ لیتے ہیں، غریبوں کے پاس اتنی رقم کہاں ہے، گاڑی والے کو اتنی رقم ادا کرکے اپنی مریض کو کراچی، کوئٹہ، خضدار لے جا سکیں، ہاں جس کی مالی حالت تھوڑی بہتر ہو، اپنی مریض کو جائے، دوران علاج فوت ہوا، میت کے وارث اپنے میت کو واپس اپنے علاقے میں دفنا نہیں سکتے ہیں، اس لیے، وہاں ایمبولینس جا نہیں سکتا ہے، مجبوراً میت کو وہاں دفنانا پڑے گا، مشکے کے خاک میں ان کو دفن ہونا نصیب نہیں ہو سکتا ہے، ہر سال بچے کے ڈیلیوری میں 40 سے 50 خواتین مر جاتے ہیں، ہر سال 100 سے زیادہ لوگ معمولی بیماریوں، علاج نہ ہونے سے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں،
مشکے میں بسنے والوں کا ذریعہ معاش نخلستان کے کجھور، کاشتکاری سے پیدا ہونے والے مٹر، بانکلینک، پیاز، جو، کپاس، خربوزے، مرچ، مزری کے پتوں سے بنائی ہوئی چھٹائی، رسی، ٹوکری، ٹوکرے، ٹوپی، مصلہ، کجھور کی خشک ٹہنیاں ان ہی چیزوں سے ان کے گزر بسر ہو رہی ہے، یہ وہ قیمت میں نہیں بکتے ہیں، مشکے کے ہمسائے تحصیلوں میں بک رہے ہوتے ہیں، مشکے میں دس ہزار ٹن کجھور پیدا ہوتی ہے، کجھور کی ایک قسم ہے، کھربا، مشکے میں 20 روپے کلو ہے، وڈھ، نال، خضدار، گریشہ کوئٹہ میں 70،80 روپے، کلو بکتا ہے، مٹر، بانکلینک اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے، سب سے پہلے مشکے کا مٹر آتا ہے، مشکے میں 50،70 روپے کلو ہوتا ہے، یہی مشکے کا مٹر نال، پنجگور، خضدار میں ڈھائی سو سے تین سو روپے کلو ہوتا ہے، جو گریشہ، نال میں 100 کلو 7000 میں ہوتا ہے، مشکے میں 6000 روپے سو کلو ہوتا ہے،
جو خوردونوش اشیا، سبزی،فروٹ باہر سے مشکے میں لاتے ہیں، مشکے، خضدار میں قیمتوں میں زمین، آسمان کا فرق ہوتا ہے، امرود خضدار میں کلو 60،70 روپے کلو مشکے میں 180 روپے کلو ہوتا ہے، کیلا خضدار میں 40،50 روپے درجن، مشکے میں 100 روپے درجن، مالٹا خضدار میں 40،50 روپے کلو مشکے میں 120 روپے، کلو ہوتا ہے، چینی ملک بھر میں 85 روپے کلو ہے، مشکے میں 100 روپے کلو ہے، سبزی، فروٹ، خوردونوش اشیا میں زمین آسمان کا فرق کیوں؟ فرق اس لیے مشکے ٹو گریشہ ایک مقام ہے، رباط، چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے اندر سڑک جاتی ہے، بارشوں سے سڑک اتنی خراب ہے، بڑی گاڑیاں رباط سے جا نہیں سکتے ہیں، رباط پہاڑیوں کے اندر سڑک کا فاصلہ 6 سے 7 کلومیٹر ہے، سڑک کی بحالی پر کم از کم دس سے پندرہ لاکھ روپے خراچہ آئیگا، 20 سال سے یہ سڑک بڑی گاڑیوں کیلئے بند ہے، میر عبدالقدوس بزنجو سے اپیل کر کرکے تھک چکے ہیں، وہ دس لاکھ روپے خرچ کرنے کو تیار نہیں، اس لیے آپ تینوں سے اپیل کرتے پانچ، پانچ، لاکھ روپے دے دیں پندرہ لاکھ روپے بنتے ہیں، ہمارا اہم اور دیرینہ مسئلہ حل ہوگا
مشکے کا دوسرا اہم مسئلہ بینک نہ ہونے سے سب سے زیادہ متاثر بیرونی ممالک متحدہ عرب امارات، مسقط، بحرین، سعودی عرب وغیرہ میں کام کرنے والے مزدور، سرکاری ملازمین، پنشنرز، وہ مستحق خواتین جن کو احساس پروگرام کے پیسے ملتے ہیں، یہ ایک دو درجن سرکاری ملازمین، پنشنرز، مزدور، مستحق خواتین نہیں، جن کی تعداد ہزاروں ہیں، متحدہ عرب امارات میں مزدوری کرنے والے مشکے کے ایک گاؤں بانسر کی مثال دیتے ہیں، 60 بیروزگار دبئی میں محنت مزدوری کر رہے ہیں، منگلی سے رونجان تک 70 کلو میٹر پر پھیلے ہوئے آبادی چھوٹے بڑے 100 گاؤں پر مشتمل ہے، اوسط ہر گاؤں میں 20 لوگ بیرونی ممالک میں مزدوری کر رہے ہو، ان کی تعداد دو ہزار بنتی ہے، یہ دوہزار مزدور اپنے اہل خانہ فیملی کیلئے پیسے کیسے بھیج دیتے ہیں، تحصیل میں بینک نہ ہو، تو؟ جس کے دوسرے اضلاع، تحصیل میں بینک اکاؤنٹس کھولے ہوئے ہیں، وہ ان کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیج دیتے ہیں، اکاؤنٹ ہولڈرز پچاس ہزار روپے میں پانچ ہزار کٹوتی کرکے بقایا رقم ان کے اہل خانہ کو ادا کرتے ہیں، بینک نہ ہونے سے مفت میں ان کے پانچ ہزار چلے جاتے ہیں،
سرکاری ملازمین، پنشنرز ایک ہزار سے زیادہ ہیں، انہوں نے آواران، نال، خضدار کے بینکوں میں اکاؤنٹس کھولے ہوئے ہیں، تنخواہ لینے کیلئے ان تحصیلوں میں جانا پڑتا ہے، آنے جانے کیلئے پانچ ہزار روپے خرچ کرنا پڑتا ہے، ایک دن بھی ان کا ضائع ہوتا ہے، بینک میں کیش نہ ہو، سسٹم خراب ہو، مزید ان کو وہاں رہنا پڑتا ہے، مزید پانچ ہزار ان کو خرچ کرنا پڑتا ہے، یا خالی ہاتھ ان کو واپس لوٹنا پڑے گا، ان تکالیف سے بچنے کیلئے وہاں دکانداروں کے ہاں کھاتہ کھول دیتے ہیں، دکاندار ان سامان دیتے ہیں، اور پیسے، سرکاری ملازم اپنے چیک دکاندار کے حوالے کرتے ہیں، پانچ ہزار کٹوتی کرتے ہیں،
احساس پروگرام کے مستحق خواتین آواران، نال، خضدار جاتے ہیں، اپنے ساتھ ایک محرم لیجاتے ہیں، دونوں کے آنے جانے کا کرایہ چار ہزار،ایک ہزار کے کھانا کھاتے ہیں، پانچ سو وہ کٹوتی کرتے ہیں، بارہ ہزار میں 5500 چلی جاتی ہے، 6500 روپے روپے لیکر گھر آتے ہیں، مشکے میں بینک ہوتا، بیرونی ممالک میں مزدوری کرنے والے، سرکاری ملازمین، پنشنرز، احساس پروگرام کے مشتحق خواتین کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا ہے،
مشکے عوام کا تیسرا اہم مسئلہ نیٹ کی بنداش
پوری ملک کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے صرف 80 ہزار آبادی والے تحصیل مشکے کے عوام نیٹ کی سہولت سے محروم نہیں محروم کر دیئے گئے ہیں، حکومت، عوامی نمائندوں کی وجہ سے جو کچھ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، ان کی آواز تحصیل مشکے سے باہر نہ نکلیں، ملک میں کسی کو پتہ نہ چلیں، ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، یہ کس حال میں جی رہے ہیں، کیا کیا سہولتیں ان کو میسر، کن کن سہولیات سے محروم کر دیئے گئے ہیں، واحد تحصیل 80 ہزار کی آبادی میں پکی سڑک نہیں، سرکاری واٹر سپلائی، ڈیم، اسٹیڈیم، پارک، پرائمری تو پرائمری ہائی اسکولوں کے بچوں چھت میسر نہیں، بازار میں سیوریج لائن، اسٹریٹ لائٹس،فائر برگیڈ گاڑی، دور دراز علاقوں میں بیسک ہیلتھ سنٹر نہیں، بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ دوسرے سہولیات نہیں،
فورتھ کلاس کے پوسٹوں پر 100 فیصد پیسے، سفارش کے بنیاد بھرتی ہوتے ہیں، ایک سابقہ محکمہ تعلیم کے آفیسر نے اپنے گھر کے بارہ افراد بھرتی کیا، نان ٹیچنگ کے 59 پوسٹوں پر ایک بھی حقدار بھرتی نہیں ہوا، اسکول مشرق میں ہے، چوکیدار، چپراسی 70 کلو میٹر دور مغرب سے بھرتی ہوا ہے، ہر سال صوبائی بجٹ میں مشکے کیلئے 10 سے 15 اسکیمات شامل کیے جاتے ہیں، ان کے منظوری ہوتی ہے، پیسے ریلیز ہوتے ہیں، سرکاری کاغذات میں اسکیمات مکمل ہیں، عوام ان سے مستفید ہو رہے ہیں، لیکن گراونڈ میں، زمین پر ایک روپیہ کا کام نہیں ہوا ہے، پیسے کہاں گئے ہیں، بااختیاروں نے آپس میں بندر بانٹ کیے ہیں، اتنے میرے، اتنے، تمہارے، اتنے فلانی کے، عوام بھاڑ میں جاویں،
جہاں جہاں نیٹ کی سہولت ہے، کھا بھی رہے ہیں، کام بھی کر رہے ہیں، سفارش، پیسے لیکر بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ میرٹ پر کچھ نہ کچھ بھرتی ہو رہے ہیں، کہتے ہیں، بن روپے ماں بھی دودھ نہیں پلاتی ہے، بچے کے منہ میں زبان ہو، اگر نہ ہو، بچہ روئے گا، کیسے، اس دور میں عوام کی زبان نیٹ ہے، نیٹ نہ ہو، عوام کیسے اٹھائے، حکام بالا، اپنے نمائندگوں تک اپنی آواز پہنچائے، دنیا کو بتائیں، ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ہمارے نمائندگوں کی کیا کارکردگی ہے، عوام کی زبان کو کاٹ دیئے ہیں، نہ عوام آواز اٹھا سکتی ہے، نہ اپنی تکلیف بیان کر سکتی ہے، تحصیل مشکے نیٹ کو بند کر دیئے، میر عبدالقدوس بزنجو کہتا تھا، مجھے جام کمال کام کرنے نہیں دے رہا ہے، اب حکومت آپ، وزیر اعلیٰ آپ خود، اب کون ہے، آپ کو کام کرنے نہیں دے رہا ہے، جناب آپ نے حلف اٹھاتے ہوئے بلوچستان میں چیک پوسٹوں کو ہٹانے کا اعلان کیا، آپ کے حکم کے تعمیل کرتے ہوئے سینکڑوں چیک پوسٹوں کو ہٹا دیئے گئے، تحصیل مشکے میں 20 چیک پوسٹ بدستور موجود ہیں، ان میں سے ایک چیک پوسٹ بھی نہیں ہٹائے ہیں، کیا مشکے کسی اور صوبے میں ہیں، وہاں آپ کی حکم نہیں چلتی ہے، مشکے کے عوام چیک پوسٹوں کی ہٹانے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں، ایک ہی ویران سڑک پر 20 چیک پوسٹوں لوکل گاڑیوں وہ بھی چند پک ایپ گاڑیاں ہر چیک پوسٹ پر انٹری لازمی ہے، لہذا آپ حکم دیں، مشکے کے داخلی اور خارجی چیک پوسٹ پر انٹری ہو، نقایا چیک پوسٹوں پر بغیر انٹری جانے کی اجازت ہو،
نیٹ کی بنداش عوام کی آواز باہر نہ نکلنے سے بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے 65 ارکان، قومی اسمبلی کے 20 ارکان، سینٹ کے 24 سینٹران، سیاسی جماعتوں کے سربراہان، چیف سیکرٹری بلوچستان، چیف جسٹس ہائی کورٹ، گورنر بلوچستان، صحافی برادران، سوشل ایکٹویسٹ وغیرہ کو میں سے کسی کو علم نہیں، صوبہ بلوچستان کے ایک تحصیل مشکے وہاں 80 ہزار آبادی میں ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ان کو کیا سہولتیں میسر ہے یا نہیں، ان کو علم ہوتا وہ ضرور اس طرح توجہ دیتے، ان کے مسئالوں کو حل کرنے کے احکامات جاری کر دیتے، ضرور نوٹس لیتے، مشکے کے 70 کلومیٹر سڑک کیوں کچھی ہے، وہاں کیوں بینک نہیں، نیٹ کے سگنل کیوں بند ہے،
آخر میں قومی اسمبلی کے ممبر سردار اختر جان مینگل، صوبائی اسمبلی کے رکن ثناء بلوچ، سینیٹر حافظ حمد اللہ صاحب سے گزارش کرتے ہیں، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، سینٹ میں ہمارے لئے آواز اٹایا جائے، مشکے کے عوام کے ساتھ حکومت بلوچستان، یہاں سے منتخب ہونے والے نمائندے عوام کو اپنے فنڈز سے کیوں نظر کر رہے ہیں، عوام کا قصور کیا ہے
شکریہ
عرض گزار اہلیانِ مشکے

اپنا تبصرہ بھیجیں