کیا عمران خان بھٹو کے انجام سے دوچارہونگے؟

تحریر : انور ساجدی

ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور میرمرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی محترمہ فاطمہ بھٹو نے برطانیہ کے اخبار گارڈین میںلکھا ہے کہ انہیںایسا لگ رہا ہے کہ سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اسی انجام سے دوچار کیاجارہا ہے جس انجام سے ان کے نانا دوچار ہوئے تھے اگرچہ فاطمہ بھٹو نے بہت بڑی پیشنگوئی کردی ہے لیکن بوجوہ ایسے حالات نہیںکہ عمران خان کو بھٹو کی طرح تختہ دار پرلٹکایاجائے بھٹو کو عبرتناک انجام سے دوچار کرنے والے حالات اورتھے جبکہ عمران کے حالات اور ہیں بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے جنرل ضیاءالحق سویلین رول اور آئین کی بالادستی ختم کرکے ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ آئندہ کوئی بھی سیاسی لیڈر بھٹو کی طرح سراٹھاکر نہ چلے ضیاﺅ الحق نے جو کچھ کیا اس کاخمیازہ یہ ریاست ابھی تک بھگت رہی ہے اور شائد آئندہ بھی بھگتے۔ضیاﺅ الحق جو کہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے فوج میںجانے کے بعد نہ صرف پاکستانی گماشتہ اور جعلی اشرافیہ کا حصہ بن گئے بلکہ انہوںنے اس کی سرپرستی بھی کی ضیاﺅ الحق نے جو کچھ کیا وہ ایک لمبی کہانی ہے اور اس کا مقصد قدیمی فیوڈل سسٹم کو تہس نہس کرکے اس کی جگہ پنجاب اور کراچی کے ٹریڈرز اور جعلی صنعتکار کلاس کو آگے لانے کا فیصلہ کیا بھٹو نے امریکہ کی مرضی کیخلاف ایٹمی دھماکہ کیا اور عوم کو سامراج کیخلاف اٹھ کھڑا کیا جبکہ خود جاگیردار ہونے کے باوجود انہوںنے فیوڈل ازم کیخلاف عوامی جذبات کو ابھارا بھٹو کی پھانسی چڑھنے کی متعدد وجوہات میںسے ایک وجہ یہ تھی کہ ان کا ڈومیسائل کمزور تھا۔
بھٹو کے مقابلہ میںعمران خان پر ابھی تک کوئی ایسا الزام عائد نہیںکیاجاسکا جس کی سزا موت ہو نہ ان پر قتل کا کوئی مقدمہ ہے نہ غداری کا کوئی الزام ہے ان پر توہین عدالت بیرون ملک سے اربوں روپے خیرات کے نام پر اکٹھا کرکے اسے تحریک انصاف کے تصرف میںلانے کرپشن کے چند جھوٹے الزامات کے علاوہ توشہ خان سے حاصل کردہ تحائف کو بیچ کر ان کی رقم اپنے کھاتے میںجمع کرنے کے معمولی الزامات ہیںاگر ان میںسے کوئی الزام ثابت بھی ہوجائے تو بھی ان کو چند سال نااہلی اور کچھ عرصہ قید کی سزا ہوسکتی ہے البتہ آگے چل کر اگر ان پر ملک دشمنی غداری اور قومی رازکسی دشمن ملک کو بتانے کاالزام لگاتو یہ الگ بات ہے فاطمہ بھٹو عمران خان کے بارے میںخدشات کااظہار کرتے ہوئے یہ بھول گئیں کہ عمران خان کا ڈومیسائل ان کی طرح کمزور نہیںہے لہٰذا انہیںکسی بھی حال میںزندگی کی سزا نہیںدی جاسکتی اگردی گئی تو طریقہ کار مختلف ہوگا ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ وقت کی تمام طاقتوںکوچیلنج کرکے ایک بڑا رسک لے رہے ہیں ان کی اس بے لچک پالیسی اور سخت رویہ کا کوئی منفی نتیجہ ضرور نکلے گا فاطمہ بھٹو کو یہ بھی یاد نہیںرہا کہ ابھی عمران خان کسی بڑی آزمائش سے نہیںگزرے اگر ان کے دادا کی طرح قید تنہائی سات بائی نوکی پھانسی کال کوٹھری کا سامنا کرنا پڑے تو تب پتہ چلے گا کہ وہ کس قدر بہادر اور سخت جان لیڈر ہے2018ءمیںجب نوازشریف کو نااہلی اور قید کی سزا ملی تو وہ یہ برداشت نہیں کرسکے تھے اس سے بھی برا حال مشرف دور میںان کا ہوا تھا جب وہ اٹک جیل میںانتہائی اذیت اور کرب میںمبتلا ہوئے تھے مشرف کی سخت قید سے تنگ آکر انہوںنے 12صفحات پر مشتمل معافی مانگ لی تھی اور جدہ جاکر دوبارہ پر تعیش زندگی کوترجیح دی تھی۔نوازشریف نے اپنی معزولی کے بعد دوتحاریک چلائیں”مجھے کیوں نکالا“ اور ووٹ کو عزت دو وہ وقتاً فوقتاً فوج کیخلاف بات کرکے دل کی بھڑاس نکالتے تھے بلکہ انہوںنے تو عمران خان سے زیادہ سخت باتیں کی تھیں اور یہ تک کہا تھا کہ یہ کون ہوتے ہیں آئین کو روندنے والے اور پارلیمنٹ کو برخاست کرنے والے اتنے سخت موقف کے باوجود نوازشریف پر اداروں کیخلاف بات کرنے اور نفرت پھیلانے کا کوئی الزام نہیںلگا لوگوں کو یاد ہوگا کہ مشرف کے دور میںخواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں فوج کیخلاف ایسی تقریری کی تھی جو اس سے پہلے کسی منتخب رکن نے نہیںکی تھی اور نہ ہی آج تک اس کی کوئی مثال موجود ہے ان سخت کلمات کے باوجود خواجہ آصف دوسری بار فوج کے وزیر ہیں یعنی وزیر دفاع۔
نوازشریف نے لندن میںجو کچھ کہا تھا اسکے باوجود ان سے صلح کرلی گئی اور اسی صلح کے نتیجے میں عمران خان کواقتدار سے الگ کیا گیا اگر خواجہ آصف کی جگہ کسی کمزور ڈومیسائل کے لیڈر نے پارلیمنٹ میںاتنی سخت تقریر کرلی ہوتی تو وہ ابھی تک منٹگمری یالانڈھی جیل میںسڑرہا ہوتا بعینہ یہی رویہ میڈیا نمائندوں کے بارے میںبھی ہے عمران خان کے ایک قریبی ساتھی عمران ریاض خان عرف گیلے تیتر نے ایک سیمینار میںبڑے سخت سوالات پوچھے تھے اور ان کا جواب بھی طلب فرمایا تھا لیکن دو دن کی حراست کے بعد وہ آج دندناتے پھررہے ہیں تحریک انصاف کے فدائی دستے کے دو اور صحافی صابرشاکر اورارشد شریف بھی کامیابی کے ساتھ بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں اور وہاں بیٹھ کر مخالفین کیخلاف ناجائز الزام تراشی میںمصروف ہیں اور اگر یہ لوگ کسی اور علاقے کے ہوتے تو ایف آئی اے کی انہیںپشاور ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرتی اور وہ ابھی تک حراست میںوقت گزاررہے ہوتے لہٰذا یہ کہنا کہ عمران خان آئندہ چل کر کال کوٹھری میںپہنچنے والے ہیں قرین قیاس نہیں ہے ان پر ایک ٹھوس مقدمہ اس وقت بن سکتا تھا جب انہوںنے سی پیک منصوبہ کی خفیہ دستاویزات اور حساس تفصیلات آئی ایم ایف کے حوالے تھیں جو لازمی طور پر امریکہ نے حاصل کرلی ہونگی لیکن طاقت کے عناصر نے درگزر سے کام لیا اس طرح عمران خان واحد لیڈر ہیں جن کے ساتھ نرمی اورصلہ رحمی سے کام لیا گیا توہین عدالت پہلا کیس ہے کہ جس میںعمران خان پکڑ میںآگئے ہیں اس کی وجہ معافی مانگنے سے انکار ہے حالانکہ انہیںدو مرتبہ موقع فراہم کیا گیا اور ابھی بھی کوئی پتہ نہیں کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے یا بعد میںان کو ریلیف دیاجائے۔
عمران خان نے معافی مانگنے سے اس لئے گریز کیاہے کہ کہیںان کے پیروکاروں میںموجود ان کی جوانمری کا سحر نہ ٹوٹ جائے کیونکہ معافی مانگنے کے بعد ان کی مضبوط شخصیت کے تاثر پر ضرور فرق پڑے گا اور مخالفین انہیںآڑے ہاتھوں لیںگے۔
ایک اور اطمینان کی بات ہے کہ فی زمانہ براہ راست مارشل کے نفاذ کا کوئی امکان نہیںہے اسی طرح خصوصی یا فوجی عدالتوں کا دور بھی باقی نہ رہا چنانچہ عمران خان پر جو بھی مقدمات چلیںگے وہ اعلیٰ عدالتوں میںچلیںگے اور یہ اعلیٰ عدالتیں مارشل لاءکی سرسری سماعت کی عدالتوں کی طرح فیصلے نہیںدیںگی۔
ہاں یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نہ صرف اپنے سیاسی حریفوں کے گلے پڑے ہیں بلکہ اقتدار میںلانے والے اپنے مربی اور محسنوں کو بھی کھلے عام چیلنج کررہے ہیں وہ باتیں تو بہت کررہے ہیں لیکن آر یا پار والی بات سے گریز کررہے ہیں نجی محفلوں میںوہ ہر روز کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہمیشہ کیلئے ہونا چاہئے کہ ملک کو کون چلائے گا؟اور یہ کہ منتخب حکومتوں کے معاملات میںمداخلت بند ہونی چاہئے لیکن معاملہ فہمی مصلحت یا خوف کے مارے وہ ابھی شفتالو کہنے سے گریزاں ہیں عمران خان کو یہ خوش فہمی ہے کہ90 فیصد عوام ان کے ساتھ ہیں جہلم کے ڈبو چوہدری نے گزشتہ دنوں 90فیصد حمایت کا دعویٰ کیا اور یہ بھی کہا کہ کسی کا باپ عمران خان کو گرفتار نہیںکرسکتا حالانکہ شہباز گل نے عمران خان کے بارے میںجو بیان حلفی دیا ہے وہ بے حد حساس اور خطرناک ہے اگر بڑے چاہیں تو عمران خان کیا اس کے بڑے بھی گرفتار ہوسکتے ہیں جس طرح بھٹو اور نوازشریف کو وزیراعظم ہاﺅس کے اندر سے گرفتار کیا گیا اسی طرح عمران خان کو بنی گالا یا زمان پارک جہاں سے چاہیں گرفتار کیاجاسکتا ہے بلکہ اصل حمایت کا تو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہی پتہ چلے گا اگر یہ نوبت آئی تو شیخ رشید پرویز الٰہی اور بابر اعوان پہلے شخص ہونگے جو رفو چکر ہونگے کیونکہ یہ لوگ بڑوں کی مرضی کے بغیر ایک قدم بھی لینے کے رودار نہیںہیں ویسے کئی سیاسی مبصرین کاخیال ہے کہ امریکہ کی مخالفت کو چھوڑ کر عمران خان نے اس وقت جو موقف اختیار کیا ہے وہ عوامی جذبات کے عین مطابق ہے اگر وہ ڈٹے رہے تو ان کی عوامی حمایت برقرار رہے گی تاہم کوئی بھی کمزوری دکھانے اور سیاسی غلطی کے بعد وہ اپنی مقبولیت کھوبیٹھیں گے اگرخان صاحب توہین عدالت کے معاملہ سے بچ گئے تو ان کی قسمت کا فیصلہ نومبر میںآنے والی تبدیلیوں کے بعد ہی ہوگا وہ کتنے پانی میںہیں22 نومبر کے بعد ہی پتہ چلے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں