کہیں ایسا نہ ہوجائے
تحریر: انور ساجدی
عمران خان کے اس اعلان کے بعد کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے میں مزید 8 دن لگ سکتے ہیں، ملکی صورتحال انتہائی گھمبیر ہوگئی ہے۔ کامونکی کے قریب اپنے خطاب میں جہاں مارچ کے شرکاءکی تعداد دو دن کی نسبت زیادہ تھی خان صاحب نے موجودہ حکومت کے”سہولت کاروں اور ہینڈلرز“ کو مخاطب کرکے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اگر صدر علوی کے ذریعے جاری خفیہ مذاکرات بارآور ثابت نہ ہوئے تو کپتان اسلام آباد پہنچ کر سہولت کاروں اور ہینڈلرز کا نام لے کر انہیں چیلنج کریں گے۔ یہ رویہ ماضی کی سیاست کے خلاف ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ عمران خان کی پشت بھی خالی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے بھی اس کے سہولت کار اور ہینڈلرز اپنا کام کررہے ہیں۔ عمران خان جس دلیری اور دیدہ دلیری کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ خالی از اسرار نہیں ہے یقینی طور پر اس کے پیچھے بھی کچھ طاقتور لوگ ہیں اور وہ عمران خان کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔
مشیروں نے صلاح دی ہے کہ لانگ مارچ کو کچھ دن اور طول دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام آباد کا رخ کریں ۔ اس حکمت عملی کے پیچھے ” دو سانڈوں“ کی لڑائی ہے۔ یہ خونخوار سانڈ مرنے مارنے پر آمادہ ہیں۔ خود عمران خان بدمست ہاتھی کی مانند سب کچھ روند کر اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں۔ ان کے دو مطالبات ہیں ایک یہ کہ ان کی مرضی کے شخص کو آرمی چیف لگایا جائے جبکہ آئندہ سال فروری میں عام انتخابات کروا کر اقتدار ان کے حوالے کیا جائے۔ عمران خان کے اس مطالبہ کو درپردہ لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ انہوں نے لانگ مارچ اس لئے شروع کیا ہے کہ 29نومبر سے قبل ان کی مرضی معلوم کرلی جائے اور اس کے مطابق تقرری کی جائے۔ اس لئے جوں جوں آخری تاریخ قریب تر آرہی ہے عمران خان کی ہیجانی اور ہذیانی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔ وہ اپنے تمام مخالفین کے خلاف دشنام طرازی کررہے ہیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کو طول اس لئے دیا ہے کہ لاہور میں شرکاءکم تھے، مریدکے میں کم تھے البتہ گوجرانوالہ آکر تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مشیروں نے رائے دی ہے کہ پشتونخواہ ، کشمیر، گلگت اور سندھ سے زیادہ سے زیادہ لوگ لائے جائیں۔
عمران کے سہولت کار بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں کی ای بڑی تعداد کو پہلے سے راولپنڈی شہر میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لئے پنجاب حکومت کے وسائل کا بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہکوشش بھی ہورہی ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کومارچ میں شمولیت پر آمادہ کیا جائے۔ جہاں تک مارچ کا داخلہ روکنے کا تعلق ہے تو موجودہ حکومت یہ صلاحیت نہیں رکھتی۔ رانا ثناءاللہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی حیثیت پنجابی فلموں کی بڑھک سے زیادہ نہےں ہے۔ کیونکہ مسئلہ اتنا سادہ نہےں ہے اور یہ رولنگ یعنی حقیقی رولنگ اشرافیہ کی لڑائی ہے۔ لوگ دیکھیں گے کہ جوں جوں مارچ کے شرکاءکی تعداد بڑھے گی عمران کا لہجہ سخت اور رویہ بدلتا جائیگا۔ جو بات عمران خان کہہ رہے ہیں وہی ن لیگ کے سپریم لیڈر نواز شریف نے بھی کہا ہے یعنی اختیار شہباز شریف کے پاس نہیں اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ اگر مقتدرہ چاہے تو انتخابات کا اعلان کرسکتی ہے۔ اگرچہ خفیہ رابطے اور بات چیت جاری ہے لیکن جلد انتخابات پر بات نہیں بن رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ صدر علوی اور پرویز الٰہی زیادہ زور لگا کر بااختیار حلقوں کو قائل کریں ورنہ عمران خان نے اپنی کشتیاں جلا دی ہیں اور ان کی فریاد ہے کہ آپ شہباز حکومت کے سپورٹرز کیوں بنے ہو، آئیں دوبارہ میری انگلی پکڑ کر مجھے کرسی پر بٹھا دیں۔
وہ ایک ہاتھ سے تھپکی دوسرے ہاتھ دھمکی دے رہے ہیں کہ اگرآپ نے اس انقلاب کا راستہ روکا تو پھر خونی انقلاب آجائیگا۔ ویسے بھی لانگ مارچ میں صحافی ارشد شریف اور ایک غریب خاتون صحافی کا خون شامل ہوگیا ہے۔ عمران خان ہر تقریر میں قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں لیکن ان کا اپنا یہ حال ہے کہ غریب خاتون کے شوہر کو تحریک انصاف والے پکڑ کر تھانے لے گئے اور لکھوا لیا کہ وہ کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتے۔ اس بے چارے کو کافی سارا پیسہ ملنے کا آسرا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قول و فعل میں تضاد پاکستانی معاشرے کا وطیرہ ہے۔ سیاستدانوں سے لے کر تمام لوگوں تک یہ وطیرہ سرائیت کرچکا ہے۔ جو لوگ عمران خان کو اٹھا رہے ہیں وہ ضیاءالحق کے پیروکار ہیں۔ انہےں عمران خان کی صورت میں ایک مو¿ثر ہتھیار ہاتھ آگیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ فاشزم عمران خان کے سوا اور کوئی نافذ نہیں کرسکتا۔ اگر عمران خان نے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تو آوے کا آوا بدل دے گا۔ پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹ دے گا اور سویلین آمر بن کر صدارتی نظام نافذ کرنے کی کوشش کرے گا۔
ان کے حامی نام نہاد درپردہ اور کی بورڈ واریئرز، یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نادانی میں عمران خان کے خطرناک منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ عمران خان کے ہینڈلرز اتنے بے رحم ہیں کہ انہیں ریاست، عوام حتیٰ کہ قتل و غارت گری کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ داعش کی طرح کے لوگ ہیں جو اپنے مقصد کے لئے کسی چیز کو بھی خاطر میں نہیںلاتے۔ یہ ضیاءالحق کی موت اور اس کے جانشین نواز شریف کے تائب ہونے کے بعد یتیم ہوگئے تھے۔ وہ نواز شریف سے اس لئے مایوس ہیں کہ انہوں نے ضیاءالحق کے نظریات کو ترک کرکے پارلیمانی اور آئینی راستہ اپنایا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ نواز شریف نے ہمارے 30 قیمتی سال ضائع کردیئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ساری امیدیں عمران خان سے وابستہ کرلی ہیں۔ یہی لوگ عمران خان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ابھی یا کبھی نہیں۔ یہ لوگ موجودہ تنازعہ کوہوا دے کر آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کے آگے مقتدرہ جھک گئی تو بھی ٹھیک اگر ملک میں خانہ جنگی ہوگئی تو بھی ان کے مقاصد آخر کار پورے ہوجائیں گے۔ طاقتور حلقوں کے دونوں طبقات کے لئے معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ چنانچہ اگر عوام بڑی تعداد میں نکل کر عمران خان کے ساتھ مل گئے تو ظاہر ہے کہ عوام سے سڑکوں پر آکر مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ یہ جو عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کو طول دینے کا فیصلہ کیا ہے اس کے کئی مقاصد ہیں ایک یہ کہ شہباز شریف کا دورہ چین ناکام ہوجائے اوردوسرا یہ کہ آئی ایم ایف حکومت سے مذاکرات ملتوی کردے۔ اس کا مقصد ملک کے سیاسی حالات کو اس نہج پر لے جانا ہے کہ ریاست ڈیفالٹ کرجائے۔
ویسے بھی عمران خان نے اپنے دور میں سعودی عرب، امریکہ اور چین کو ناراض کردیا تھا۔ فارن پالیسی کیا ہے اس کی بلا سے۔ وہ افغانستان ٹائپ حکومت چلانا چاہتا ہے۔ وہ کرب اور اضطراب میں اس لئے مبتلا ہیں کہ کہیں شہباز حکومت مستحکم نہ ہوجائے اور معیشت بہتر کرنے میں کامیابی حاصل نہ کرلے۔ صورتحال اس وقت واضح ہوگی جب عمران خان اور طاقت کے عناصر سنجیدہ مذاکرات کے دور میں داخل ہوں گے۔ اس کا انحصار مارچ میں شرکاءکی تعداد پر ہے۔ شرکاءکی تعدادکا صحیح اندازہ روات پہنچنے پر ہوگا۔ اگر تعداد لاکھوں میں ہوئی تو حکمرانوںکو سرنڈر کرنا پڑے گا اور عمران خان کی منت سماجت کرنا پڑے گی کہ وہ الیکشن کی تاریخ تک دارالحکومت کا محاصرہ نہ کریں۔ اس التجا کے بعد عمران خان اپنی مرضی کے مطالبات منظور کرائیں گے۔ اگر اس دوران لوگوں کی عدم شرکت کی وجہ سے مارچ کامیاب نہ ہوسکا تو کچھ اور ہوگا۔ بعض مبصرین مارشل لاءکے نفاذ کا بھی خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔
تاہم یہ مارشل لاءاسلام آباد اور راولپنڈی تک محدود ہوگا جس کی اجازت پارلیمنٹ سے لینا پڑے گی۔ اگر عدالتوں نے کچھ اور نہ کیا تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ ایک خوشخبری یہ ہے کہ جنوبی امریکہ کے سب سے بڑے ملک کے صدارتی انتخابات میں ترقی پسند رہنما لولہ ڈی سلوا برازیل صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ پہلے صدارتی دور میں انہیں کرپشن کے الزام میں معزول کیا گیا تھا۔ لولا کی کامیابی پر روئے زمین کے آخری بچے کھچے سوشلسٹ رہنماﺅں ڈاکٹر شاہ محمد مری اور صباءالدین صبا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔