آن لائن کلاسز یا مخصوص طبقات تک تعلیم مئی 18, 2020مئی 18, 2020 0 تبصرے جیند ساجدی جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے معروف سیاہ فام لیڈ رنیلسن منڈیلا تعلیم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ”دنیا تبدیل کرنے کیلئے سب سے طاقتور ہتھیار تعلیم ہے“ یقینا نیلسن منڈیلا کا تعلیم سے مراد معیاری اور حقیقی تعلیم تھا نہ کہ وہ تعلیم جو سامراجی قوتیں اپنی کالونیوں پر رائج کرتی تھیں جس کا مقصد مفتوحہ علاقے کے لوگوں کی ثقافتی نسل کشی کرنا اور اپنی قبضہ گیریت کو جائز قرار دینا تھا تعلیم کی طاقت سے سامراجی قوتیں بخوبی واقف تھیں ان کی کالونیوں میں بغاوت اور ان کی استحصالی پالیسیوں پر مزاحمت اکثر مفتوحہ علاقے کے تعلیم یافتہ لوگ کرتے تھے۔ تعلیم کی طاقت کو جانتے ہوئے سامراجی قوتوں نے اپنی کالونی میں معیاری تعلیم کے فروغ کو قابوکرنے کیلئے بہت سے اقدامات کئے۔دنیا میں جہاں نو آبادیاتی نظام تھا وہاں تعلیم ہر خاص و عام کیلئے نہیں تھی بلکہ ایک مخصوص طبقے کیلئے تھی اکثر اس مخصوص طبقے کا تعلق مفتوحہ علاقے کے اشرافیہ سے تھا جو سامراجی قوتوں کے فرمانبردار تھے اور ان کو اپنے ملک میں حکومت کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ مخصوص تعلیم کے علاوہ نو آبادیاتی نظام میں تعلیم کی اکثردو یا زیادہ اقسام ہوتی تھیں۔ عموماً نو آبادکار اپنی کالونیوں میں دو قسم کے تعلیمی مراکز بناتے تھے۔ ایک تعلیمی مرکز میں ان کے اپنے بچے پڑھتے تھے وہاں انہیں سائنسی اور تکنیکی تعلیم فراہم کی جاتی تھی تاکہ وہ ملک چلانے کے اہم انتظامی پوسٹوں پر جیسے کہ ریلوے‘ ٹیلی گراف‘ زرعی ڈیپارٹمنٹ وغیرہ میں فائز ہو جائیں جبکہ مفتوح علاقے کے بچوں کی تعلیم کیلئے ایسے تعلیمی مراکز بنائے جاتے تھے جہاں انہیں سائنسی اور تکنیکی تعلیم کی بجائے "Humanity” جیسے سبجیکٹس کی تعلیم دی جاتی تھی اور اکثر سامراجی قوتیں اپنی زبان میں تعلیم دیتے تھے تاکہ مفتوحہ علاقے کے لوگ ان کی زبان سیکھیں اور ان کو انتظامی امور چلانے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس قسم کی تعلیم کی پالیسی فرانس نے ویتنام میں بنائی تھی ان تعلیمی مراکز کے بچوں کا سارا دھیان فرانسی زبان سیکھنے پر تھا سائنسی و تکنیکی تعلیم سے ان کو دور رکھا گیا محض فرانسیسی زبان کے سیکھنے کی غرض نے ویتنام کے بچوں میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی بہت کم کردیا تھا۔ ان کی تعلیم کا مقصد بس اپنے آقاؤں کی زبان سیکھنا تھا۔ ان تعلیمی مراکز سے فارغ ہو جانے کے بعد ویتنامی بچے چھوٹے چھوٹے انتظامی عہدوں پر فائز ہو جاتے تھے جس سے فرانسیسیوں کو انتظامیہ چلانے میں مدد ملتی تھی۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ان تعلیمی مراکز میں ویتنامی بچوں کو انقلاب فرانس کے بارے میں بھی کچھ نہیں پڑھایا جاتا تھا جس کا مقصد ان کو انسانی حقوق اور مساوات سے دور رکھنا تھا۔ جب ویتنام کے کچھ دانشوروں نے فرانسیسی سرکار کی یہ استحصالی تعلیمی پالیسیاں دیکھیں تو انہوں نے ویتنامی بچوں کو معیاری تعلیم دینے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت سکول کھولے جن میں سب سے مشہور ڈانگ کن فری اسکول تھا۔ اس سکول سمیت غیر سرکاری سکولوں کو فرانسیسی سامراج نے 1907ء میں بند کروا دیا اور بہت سے ویتنامی دانشوروں کا قتل عام بھی کیا۔ اس کے علاوہ بہت سے ویتنامی بچے جو جاپان کے سکولوں میں ملٹری تعلیم حاصل کر رہے تھے فرانس نے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ ویتنامی بچوں کو اپنے تعلیمی ادارے سے فارغ کرے ورنہ فرانس جاپان کی امداد بند کر دے گا۔ اسی طرح کی پالیسیاں سپین نے امریکہ میں اپنائی اور نیدر لینڈ نے انڈونیشیاء میں۔اس خطے(برصغیر) میں برطانوی سامراج شروع میں تاجر (ایسٹ انڈیا کمپنی) کی صورت میں آیا اس نے اپنے ابتدائی سالوں میں تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی اور ان کا مقصد صرف تجارت اور اپنے منافع میں اضافہ تھا۔ لیکن جب ان کی سلطنت وسیع ہوئی تو انتظامی امور چلانے کیلئے انہیں افرادی قوت کی ضرورت پڑی تو انہوں نے یہاں بھی تعلیمی مراکز کھولنے کا فیصلہ کیا اور تعلیم عام کرنے کے بجائے مخصوص علاقوں اور مخصوص لوگوں تک تعلیم کو محدود کیا اور اکثریتی عوام کو تعلیم سے دور رکھا۔ اس اقدام کو برطانوی افسر لارڈ میکالے نے "Down Right Filtration Theory” کا نام دیا.انہوں نے اس تعلیمی پالیسی کی وضاحت کچھ اس طرح کی کہ ہر عام و خاص ہندوستانی کو تعلیم دینا ممکن نہیں اس لئے ہم چند مخصوص ہندوستانیوں کو تعلیم دیں گے جو بعد میں ہر عام و خاص ہندوستانیوں تک تعلیم پہنچائیں گے۔ لیکن ان کے اصل مقاصد اپنے رعایا میں ایک کلاس کا قائم کرنا تھا جو صرف رنگ و نسل سے ہندوستانی ہواورعادات اوطبعیت سے برطانوی۔ ان مخصوص تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے لوگوں کو تعلیم دینے کی بجائے اپنے ہی لوگوں کو جاہل و حقیر سمجھا اور برطانوی سامراج کے انتظامی امور کے معمولی عہدوں پر فائز ہو کر انتظامیہ چلانے میں ان کی مدد کرتے رہے۔لیکن ویتنامیوں کی طرح ہندوستانیوں کو بھی برطانوی سرکار نے سیاسی تکنیکی تعلیم سے دور رکھا اور ان کی تعلیم کو محض انگریزی سیکھنے تک محدود کیا۔ بڑے انتظامی عہدوں جیسے کہ انجینئرنگ‘ ٹیلی گراف‘ ریلوے وغیرہ محض یورپی نژاد لوگوں کیلئے مختص کئے گئے تھے۔یورپی نژاد بچوں کو معیاری تعلیم دینے کیلئے مخصوص تعلیمی ادارے جیسے کہ ایچ ایسن کالج لاہور‘ لارنس کالج مری و دہرادون‘ برن ہال کالج ایبٹ آباد وغیرہ جیسے ادارے بھی قائم کئے گے تھے جہاں اکثر برطانوی افسروں کے بچے پڑھتے تھے اور ان اداروں میں کچھ سیٹیں انہوں نے یہاں کے اشرافیاں کے یعنی نوابوں اور سرداروں کے بچوں کیلئے مختص کی تھیں۔ اس لئے ایچ ایسن کالج کو Chiefsکالج بھی کہا جاتا ہے۔ ان جانبدارانہ تعلیمی نظام کی وجہ سے جب عالمی جنگ کے بعدسامراجی نظام ٹوٹا اور متعدد کالونیاں آزاد ہوئیں تو اکثر نو آبادیاتی نظام میں رہنے والے ممالک کی شرح خواندگی یورپ اور دنیا کے آزاد ممالک کی نسبت بہت کم تھی ہندوستان کی شرح خواندگی آزادی کے وقت محض 15 فیصد تھی حالانکہ زمانہ قدیم میں ہندوستان تعلیم کا بڑا مرکز تھا دنیا جہاں کے دانشور سنسکرت میں "Medicine”کے حوالے سے لکھی کتابوں کو اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے تھے۔ اشوکا نے ٹیکسیلا میں دنیا کی سب سے قدیم جامعہ بھی تعمیر کی۔لیکن بڑی مدت تک سامراجی قوتوں کے زیر اثر رہنے کے بعد ہندوستان کا تعلیمی نظام تباہ ہو گیا تھا۔1947ء کے بعد پاکستانی اشرافیہ نے سامراجی طرز کی تعلیمی پالیسیاں اپناتے ہوئے ملک میں تعلیم کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا۔ ایک قسم اردو میڈیم سرکاری سکولوں کی ہے جہاں معیار تعلیم بہت ہی ناقص ہے یہاں سے پڑھے ہوئے طلباء اکثر بے روزگار یا چھوٹی انتظامی پوسٹوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔ دوسری قسم مدرسہ کی ہے جہاں کے اکثریتی طلباء بے روزگار ہی رہتے ہیں یا پھر کشمیر اور افغانستان میں جہاد کا آپشن ان کے پاس میسر ہوتا ہے۔ تیسری قسم انگلش میڈیم پرائیویٹ سکولوں کی ہے جو زیادہ فیسوں کی وجہ سے ہر عام و خاص کی پہنچ میں نہیں ہے اور وہاں اکثر اشرافیہ یا اپر مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے بچے پڑھتے ہیں۔ یہاں پڑھنے کے بعدوہ انتظامیہ کی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں کیونکہ پاکستان میں بڑی پوسٹ پر فائز ہو جانے کیلئے محض انگریزی پر عبور کافی ہے لہذا موجودہ پاکستان کا تعلیمی نظام سامراجی دور کی عکاسی کرتا ہے اور اس کا خمیازہ سب سے زیادہبلوچستان کے طلباء کو اٹھانا پڑا ہے صوبے بھر میں پہلے سکول اور کالج گنے چنے تھے اب ان میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن معیار تعلیم بہت ناقص ہے۔ پرائیویٹ انگلش سکول اور کالجز محض کوئٹہ تک محدود ہیں جہاں اکثر دوسرے صوبوں سے درآمد کئے ہوئے بیورو کریٹس کے بچے پڑھتے ہیں اور چھوٹی تعداد میں مقامی اشرافیہ کے بچے۔لیکن بلوچستان کی اکثریتی آبادی ان تعلیمی مراکز سے دور ہیں یہاں سے پڑھنے لکھنے کے بعد اکثر دوسرے صوبوں سے درآمد کئے ہوئے افسروں کے بچے اور مقامی اشرافیہ کے بچے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔ اس طرح مرکزی سرکار نے بھی برطانیہ ودیگر سامراجی طاقتوں کی تعلیمی پالیسیوں کو گزشتہ 72سالوں سے بلوچستان میں جاری و ساری رکھا ہے پنجگور میں کچھ عرصہ قبل امریکہ سے لوٹے ہوئے چند اساتذہ نے معیاری اور فیسوں کے حوالے سے مناسب انگلش میڈیم تعلیمی ادارے بنائے تھے لیکن 2014ء میں ان کا وہی انجام ہوا جو فرانس نے ویتنام میں اپنی مدد اپ کے تحت تعلیمی اداروں کا کیا تھا۔مخصوص تعلیم کی ایک اور نشانی یہ بھی ہے کہ یہاں جامعات بہت کم تعداد میں ہیں اور میڈیکل کالج صرف ایک ہی فنکشنل ہے انجینئرنگ کالجز بھی گنے چنے ہیں اب انہی محدود اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ یہ بھی عام شہری کی پہنچ سے دور ہو جائیں اور اشرافیہ کیلئے مختص ہو جائیں اس پر بولان میڈیکل کالج کے طلباء نے شدید مزاحمت بھی کی ہے بیوٹمز تقریباً پرائیویٹائز ہو چکی ہے اور اس کی فیسیں اتنی ہیں کہ عام شہری وہاں تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔اس وقت کورونا وائرس کے باعث تمام تعلیمی ادارے بند ہیں محض کوئٹہ کے چند پرائیویٹ سکولز آن لائن ہوم ورک کے ذریعے اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور باقی بلوچستان میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں بند پڑی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں ایچ ای سی نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے کہ جب تک جامعات نہیں کھلتی اس وقت تک آن لائن کلاسز ہونگی اسلام آباد میں مقیم ایچ ای سی کے عہدیداروں کو شاید اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ بلوچستان کے اکثر ضلعوں جیسے کہ قلات‘ آواران‘ پنجگور‘ تربت‘ سوراب‘ واشک وغیرہ میں انٹرنیٹ سیاسی وجوہات کی بناء پر کئی سالوں سے بند ہے اگر آن لائن کلاسز شروع ہوں تو صرف کوئٹہ تک محدود ہونگی اور اکثریتی طلباء جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں وہ اس سے محروم ہو جائیں گے۔حکومت بلوچستان بالخصوص وزیراعلیٰ بلوچستان جو خودانٹرنیٹ کے بہت شوقین ہیں اور ان کا اکثر وقت وٹس ایپ اور ٹویٹر میں گزرتا ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں بلوچستان کے متعدد علاقوں میں انٹرنیٹ نہیں ہے لیکن پھر بھی اس حوالے سے خاموش ہیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ حکومت بلوچستان ایچ ای سی کو قائل کرتی کہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر بلوچستان کے طلباء کو آن لائن سے استثنیٰ دے۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہئے کہ بلوچستان بھر میں انٹرنیٹ کی بندش کو ختم کرے یہ دور ڈیجیٹل دور ہے مغربی ممالک میں بہت سی جامعات بین الاقوامی طلباء کو Distance Learning کے ذریعے کلاسز دے رہے ہیں اس دور میں انٹرنیٹ کو بلوچستان میں بند کرنا یہاں کی آنے والی نسل کو ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل اور تکنیکی صلاحیت سے معذور کرنے کے مترادف ہے۔شاید صاحب اقتدار لوگوں کیلئے بلوچستان سیاسی حوالے سے کافی حساس ہے اس لئے انہوں نے انٹرنیٹ کی رسائی کو بلوچستان بھر میں محدود کر دیا ہے لیکن ان کو علم ہونا چاہئے کہ اس حکمت عملی سے بلوچستان کا سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا۔بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنی حکومت کرنے کا طرز عمل تبدیل کریں اس سیاسی مسئلے کو حل کرنے میں اگر حکومت سنجیدہ ہے تو یہاں کے لوگوں کو برابر کا شہری سمجھیں اور ان کو برابر کے حقوق دیں۔ اگر بزور طاقت یا تعلیم کو مخصوص طبقات تک محدود کرنے سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہوتا تو شاید 72 سال پہلے ہی حل ہو چکا ہوتا۔ لہذا گزشتہ 72 سالوں کی حکمت عملی اپنا کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کی سوچ حماقت ہے البرٹ آئن سٹائن لکھتے ہیں کہ ”پاگل پن کی ایک نشانی یہ ہے کہ آپ ایک ہی چیز بار بار کریں اور مختلف نتائج کی توقع رکھیں“ Share this:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)Click to share on WhatsApp (Opens in new window)Click to print (Opens in new window)