بلوچستان میں اسکولوں کو نذر آتش کرنا، قوم کے مستقبل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے

تحریر: جی آر بلوچ

البتہ یہ ایک حقیقت ہیکہ قوموں کی ترقی کا انحصار علم و تعلیم پر ہے۔ اس لیے ہر معاشرے میں تعلیم کی ترقی کیلئے کوششیں ہوتی ہیں. جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اُنہوں نے سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو ٹھیک کیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایسا ستیاناس ہوا پچھلے کچھ دہائیوں سے کہ ہر کوئی اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہا ہے. بنیادی سہولتوں کا فقدان ، غیر ضروری نصاب، اقربا پروری، بدعنوانی، سفارش کا کلچر، شخصیت پرستی، علاقہ پرستی، فیورٹ ازم، رشوت خوری اور انتظامیہ کے طرف سے ہراسمنٹ نے ہمارے تعلیمی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے.جس طرح شہیدِ وطن صبا دشتیاری نے کہا تھا کہ "پاکستانی تعلیمی نظام انسان کو نامرد بنا دیتا ہے”۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق "صوبے میں اب بھی 12 لاکھ سے زائد بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں اور ان میں سے 5 سے 15 سال تک کے زیادہ تر بچے اپنے گھرانوں کی معاشی ضروریات کے لیےکچرہ چننے، مکینک شاپس، ہوٹلوں اور مُختلف فیکڑریوں سمیت دیگر مزدوری کےکاموں کرنے پر مجبور ہیں”۔

میں نے کچھ تحریوں کا مطالعہ کیا جس میں بلوچستان میں اب تک 12 ہزار سے زائد اسکول تعمیر کیے جاسکے ہیں جن میں زیادہ تر پرائمری اسکول ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بچوں میں اسکول چھوڑنے کی شرح زیادہ ہے۔

2017  کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی 12,344,408 ہے۔ صوبے کی وزات برائے ثانوی تعلیم ہر سال رئیل ٹائم اسکول مانیٹرنگ سسٹم (آر ٹی ایس ایم) کے تحت بک لیٹ کی شکل میں اعداد شمار جاری کرتی ہے۔ جاری کردہ 19-2018 کی بک لیٹ کے مطابق صوبے میں کل سکولوں کی تعداد 14855 ہے، جس میں سے 73.4 فیصد یعنی 10971 سکولوں کی مانیٹرنگ کی گئی۔ ان اسکولوں میں سے 2998 اسکول بند پائے گئے۔ 73.4 فیصد اسکولوں میں سے بچوں کے 31.1 فیصد جبکہ بچیوں کے 33.4 فیصد اسکولوں میں بیٹھنے کے لیے میز، کُرسیاں یا پھر چٹائی جیسی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ان تمام مشکلات کے بعد اب بلوچستان کے اسکولوں کو جہاد کے نام سے جلایا جارہا ہے جو ریاست کی ایک بنی بنائی سازش ہے۔ اسکولوں کو جلانے کا جہاد آسمانی کونسے کتاب میں ہے؟ اگر تعلیمی نظام کو تباہ کرنا اور بچوں و بچیوں کے اسکولوں کو نذرآتش کرنا جہاد ہے تب ان جہادیوں کے خلاف آواز اُٹھانا اور ان کے ساتھ لڑنا بھی جائز ہے۔

رواں سال بلوچستان کے مُختلف علاقوں میں اسکولوں کو نذر آتش کیا گیا ہے جن میں کیچ کے علاقے بل نگور بازار میں گوربام کے نام سے قائم پرائیویٹ اسکول کو نذر آتش کیا گیا۔ آگ کے باعث اسکول میں موجود کتابیں، فرنیچر اور کمپیوٹر جل گئے۔اسکول کو نذر آتش کرنے والوں نے وہاں الجہاد کے نام سے پمفلٹ بھی پھینکے تھے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو انگریزی نہ پڑھائیں بلکہ ان کو دینی تعلیم دلائیں۔ انگریزی نہ پڑھانے کے خلاف جہادی جاگ جاتے ہیں تو چائنا کی زبان پڑھائی جارہی ہے تو کیا چائنا دینی تعلیم ہے یا پھر ان جہادیوں کو صرف بلوچستان کے اسکولوں کو جلانے کا ٹھیکہ دیا گیا جس پے وہ عمل پیرا ہیں؟ کیا انگریزی صرف بلوچستان میں پڑھایا جاتا ہے جو کہ بلوچستان کے اسکلولوں کو جلایا جارہا ہے؟

رواں سال ضلع کیچ میں اس پرائیویٹ اسکول کو جلانے کا یہ پہلا واقعہ تھا اس سے قبل اس سے متصل ضلع پنجگور میں پرائیویٹ سکولوں کو دھمکیاں ملی تھیں اور حملوں کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں، تاہم مکران ڈویژن میں پرائیویٹ اسکولوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ موجودہ صوبائی حکومت کے دور میں شروع ہوا ہے۔ پنجگور میں پرائیویٹ اسکولوں کو ایک غیر معروف تنظیم ’الفرقان اسلامی‘ کے نام سے دھمکی دی گئی تھی۔

پنجگور میں اس تنظیم کی جانب سے جو دھمکی آمیز خط بھیجا گیا تھا اس میں یہ تنبیہ کی گئی تھی کہ پرائیویٹ اسکولوں میں طالبات کو نہ پڑھائیں جبکہ والدین سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں۔ اس واقع سے واضح ہوا کہ یہ جہادی بھی خیبر پشونخواہ کے امن کو تباہ کرنے والے Good اور Bad طالبان کی طرح ہیں۔ جہادیوں کو پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں سے کیا واسطہ؟
البتہ پرائیویٹ اسکولوں کو دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے بعد پنجگور میں تمام پرائیویٹ اسکول تین ماہ تک بند رہے تاہم اگست کے وسط میں ان کو دوبارہ کھول دیا گیا۔

اس کے علاوہ ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ میں کلکشان اسکول کو آگ لگا کر خاکستر کیا گیا اور پسنی کے علاقے وڈ سر، ریک پشت میں گرلز پرائمری اسکول کے انفراسٹرکچر کو جلا کر خاکستر کیا گیا۔ کیچ کے ہی علاقے دازن میں خان کلگ ہائی اسکول کو سازشی لوگوں نے آگ لگا کر راکھ بنایا اور اسکول میں تعلیمی سرگرمیوں کا تسلسل روک دیا گیا۔ رواں ہفتے وندر کے علاقے سونمیانی میں پرائیویٹ تعلیمی ادارہ ٹی سی ایف پر شرپسند عناصر نے حملہ کر کے اسکول انفراسٹرکچر کو نذر آتش کیا۔

البتہ بلوچستان کے اسکولوں کو جلانا بلوچ قوم کے مستقبل کو نذر آتش کرکے تباہ کرنے کے مترادف ہے البتہ اسکولوں کو جلانے سے مُراد بلوچ قوم کے طلباء و طالبات کو بنیادی تعلیمی اداروں سے خوفزدہ کرکے اُنہیں تعلیم چھوڑ دینے جیسے فیصلوں پے مجبور کرنے کی ایک ناکام اور بنی بنائی سازش کی جارہی ہے۔ بطورِ بلوچ قوم ہمیں اس سنگین مثلے کو ہر فارم پر اُجاگر کرنے کیلئے جدوجہد کرنی ہے چھوٹی موٹی احتجاج کرنے اور شور شرابا کرنے سے اس طرح کے سنگین مسائل حل نہیں ہونگے نہ ہی ان بہرے حکمرانوں کوہماری چیخ سُنائی دیگہ اس طرح کے سنگین مسائل کے حل کیلئے بلوچستان کے تمام طلباء تنظیمیں، سیاسی و سماجی پارٹیاں، تعلیم دوست رہنماؤں اور مصنفوں سمیت تمام تر بلوچستان کو آواز اُٹھانی ہے اور ان نام نہاد سازشی، تعلیم دشمن جہادیوں کو نیست و نابود کرکے اپنے آنے والے نسلوں اقف اُن کے تعلیمی نظام کو بچانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں