ریکوڈک کے معاہدہے پر قانون سازی اور بلوچ قوم پرستوں کا شدید ردعمل:

تحریر: محمد صدیق کھیتران
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 172/3 کے مطابق معدنیات متعلقہ صوبوں کی ملکیت ہیں۔ان کے متعلق قانون سازی بھی صوبائی اسمبلی ہی کرسکتی ہے۔ مگر اس مہینے کی 10 تاریخ کو صوبائی اسمبلی میں ریکوڈیک کے معاہدے اور غیرملکی سرمایہ کاری سے متعلق قانون سازی ہوئی۔جوکہ بعد ازاں دوسرے ہی دن ہنگامی حالت میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی بھاری اکثریت سے پاس کرائی گئی۔بلوچستان کے قوم پرست حلقوں سے اس کا شدید ردعمل آرہا ہے۔صوبے کے طول و عرض خاص کر بلوچ علاقوں سے مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔بلوچ عوام ایک عرصے سے اپنے وسائل اور ساحل کے بارے میں انتہائی حساس ہے۔ان کی سیاست کا محور ہی ان وسائل کا تحفظ ہوتی ہے۔بلوچستان کے اندر چلنے والی شورش اب تیسرے عشرے میں چل رہی ہے۔اس دوران متعدد چوٹی کے راہنماوں سمیت 60 ہزار کے قریب سیاسی کارکن مارے گئے۔پندرہ بیس ہزار نوجوان لاپتہ ہوچکے ہیں۔ایسے ماحول میں ریکوڈیک کے بارے میں ہنگامہ خیز قانون سازی نے صوبے میں بے چینی کی لہر دوڑا دی۔سردار اختر مینگل کی جماعت نے اسمبلی میں موقف اختیار کیا کہ جو ترمیمی مسودہ سامنے لایا گیا وہ بند کمرے میں دی گئی بریفنگ سے یکسر مختلف ہے۔ڈاکٹر مالک بلوچ سربراہ نیشنل پارٹی نے اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں اس ترمیم کو طریقہ کار کے خلاف قرار دیا۔ سینٹر طاہر بزنجو نے سینٹ میں اس ترمیم کی مخالفت کی۔اس کے ساتھ ڈاکٹر مالک نے اپنی جماعت کی طرف سے اس بل کی مزاحمت کا اعلان کیا۔ بلوچستان کے ساتھ ہمیشہ سے عجیب انداز میں حساس مسئلوں کو سیاسی معاملات میں ڈیل کیا جاتا رہا ہے۔جب بھی بند کمروں میں بات ہوتی ہے اس کے متعلق بعد میں ہر دو فریق مختلف موقف اختیار کرلیتے ہیں۔اس کے پیچھے وجہ یہ ہوتی ہے۔حکومت اور حزب اختلاف کو اصل حقائق سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ہر ایک معلومات کو کلاسیفائڈ رکھنے کا مرض بہت پرانا ہے۔سیندک،سیپیک CPEC یا پھر حتی کہ سوئی گیس کے ریونیو جیسے معاملات کے بارے میں معلومات کو کلاسیفائڈ رکھ کر گفت و شنید کی جاتی ہے۔جو کہ اکثر اوقات وجہ نزع بنتی ہے۔اور پھر بداعتمادی، شکوک اور خلفشار کی نئی لہر بن کر سامنے آتی ہے۔
ریکوڈک کے بارے بہت کچھ لکھا جا جاچکا ہے۔مگر اس کے کئی مخفی پہلووں سی نئی نسل بے خبر ہے ضرورت اس امر کی ہے اس کا تاریخی تناظر ایک دفع پھر سامنے لایا جائے۔تاکہ نئے حالات میں جب عالمی بنک کے نیچے بحیثیت ریگولیٹر International center for Settlement of Investment of dispute
(ICISD) نے جو جرمانے عائد کئے ہیں۔جس کی حکم عدولی کے نتیجے میں صوبے میں غیرملکی سرمایہ کاری میں روک لگادی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہیں۔ کہ صوبے میں ایک لاکھ کے قریب نوجوان بیروزگار ہیں ہرگزرتے دن کے ساتھ ان میں 10 افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔آزاد مارکیٹ اکانومی کے دور میں تجارت و کاروبار حکومتوں کا کام نہیں۔اور خاص کر بلوچستان جیسے کرپٹ نظام حکومت میں جہاں حکومتی فنڈوں میں وزرا اور نوکرشاہی% 85 رقم کھاجاتے جاتے ہیں۔وہاں سرمایہ کاری کیلئے "پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ” کے بغیر ترقی کا سفر ناممکن ہے۔
1993میں آسٹریلیا کی کمپنی BPH Billiton اور حکومت بلوچستان کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔اس معاہدے کی رو سے ضلع چاغی میں سونے اور دیگر معدنیات کی تلاش میں مشترکہ مہم شروع کی جانی تھی۔” Chaghi hills exploration joint venture agreement CHEJVA” کا نام دیا گیا۔اس معاہدے کی رو %75 حصہ BHP کا %25 حصہ سرمایہ کاری کی صورت میں بلوچستان حکومت کا ہوگا۔البتہ %2 رائلٹی حکومت بلوچستان کا حق تسلیم کیا گیا۔
اپریل 2000 کو BHP نے اپنا حصہ ایک دوسری آسٹریلیا کی کمپنی "Mincor Resources” کے پاس بیچ دیا۔آگے چل کر 6 سال بعد اس کمپنی کو TTC کمپنی نے خرید کر اپنے اندر ضم کرلیا۔یہ وہ موقع تھا جب حکومت بلوچستان اس مسلسل خریدوفرخت پر تحفظات پیش کرکے اپنا مقدمہ مضبوط کرسکتی تھی۔مگر اتنی پھرتی اور چالاکی بلوچستان میں شروع سے ناپید ہے۔ مجبور ہوکر 2006 میں بلوچستان حکومت نے معاہدے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔جس میں موقف رکھا گیا۔کہ حکومت بلوچستان اور متعلقہ کمپنی نے اس معاہدے کو صحیح طریقے سے رجسٹر ہی نہیں کیا۔اس کے علاوہ حکومت بلوچستان نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور بغیر کسی مجاز اتھارٹی کی پیشکی منظوری کے غیر قانونی رعایتیں دے دیں گئیں۔بلوچستان ہائی کورٹ نے حکومت کے اس استدلال کورد کردیا۔اس سے معاہدے کو قانونی حیثیت مل گئی۔چنانچہ 2011 میں "TTC” نے حکومت بلوچستان کو کان کنی کیلئے لیز الاٹ کرنے کی درخواست دے دی۔بلوچستان حکومت نے 9 مہینے تک درخواست لٹکائے رکھنے کے بعد درج زیل اعتراض لگاکر واپس کردی کہ معاہدے میں Smelting اور Refining کو پاکستان کرانے کی شق کا اضافہ کیا جائے۔رائلٹی ریٹ میں اضافہ کیا جائے اور اس کے علاوہ منصوبے میں مقامی افراد قوت کا اضافہ کیا جائے۔”TTC” کو یہ شرائط قبول نہیں تھیں۔وہ عالمی بنک گروپ "ICSID” کے پاس اپنا کیس لے گئی۔ اس نے اپنے مقدمے میں حکومت بلوچستان پر کام اچانک رکوانے اور 220 ملین ڈالرز پہلے سے کیئے ہوئے خرچ کے ساتھ 11.3 ملین کا ہرجانہ claim ڈال دیا۔
دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے "CHEJVA ” کو غیرقانونی قرار دیا۔کیونکہ صوبائی حکومت غیر ممالک کی کمپنیوں سے بغیر کسی پیشکی منظوری کے معاہدہ نہیں کرسکتی تھی۔ ساتھ ہی مزید واضح کیا کہ TTC کے پاس ریکوڈک منصوبے پر معدنیات تلاش کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں بچا۔
جولائی 2017 کو "ICSID ” نے فیصلہ دیا جس میں یہ توقع کی گئی کہ پاکستان اپنے معاہدے CHEJVA کے مطابق لیز الاٹ کردے گا۔انکار کی صورت میں TTC کا نقصان پورا کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔اس نے ساتھ ہی پاکستان کی طرف سے درجن بھر الزامات جس میں سابق وزیر اعلئی بلوچستان نواب محمد اسلم ریئسانی کو TTC کی طرف سے 10 ملین ڈالرز رشوت کی آفر کے ثبوت نہ ہونے پر خارج کردیے۔
کیا یہ حسن اتفاق ہے۔یا پھر کارپوریٹ دنیا کی اپنی کارستانیاں ہیں۔کہ عالمی ثالثی فورم ICSID کا فیصلہ جولائی 2017 دینے کے بعد 6 مہینے کے اندر بلوچستان میں سیاسی انتشار شروع ہوا۔سیاسی جماعتوں میں بغاوت کروا کر 13 جنوری 2018 کو اسی قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ بنایاگیا۔حالانکہ اس وقت صوبے میں سہہ جماعتی مضبوط حکومت قائم تھی۔مسلم لیگ نواز کی جماعت کے اندر بغاوت کروائی گئی۔دوسری طرف اسمبلی کو اپنی مدت پوری کرنے میں صرف دو مہینے باقی تھے۔اس عدم اعتماد سے پہلے آصف زرداری نے بلوچستان کا تفصیلی دورہ کیا اور اعلان کیا تھا کہ وہ بلوچستان میں حکومت کو بدل رہا ہے۔حالانکہ پیپلز پارٹی کا ایک بھی نمائندہ بلوچستان اسمبلی میں نہیں تھا۔آصف زرداری نے اپنی پارٹی کے قیوم سومرو کو ہفتہ بھر کوئٹہ میں کیمپ لگاکر بیٹھنیکا ٹاسک دے دیا۔جب عدم اعتماد کامیاب ہوا تو زرداری نے میڈیاپر آکر اس کی ذمہ داری بڑے فخر سے لے لی۔یاد رہے اسٹیبلشمنٹ کے اس پروجیکٹ کے حق میں سردار اختر مینگل اورجمعیت کے مولانا واسع نے بھی قدوس بزنجو کی اپوزیشن میں رہ کرحمائت کی تھی۔(اسی فارمولے پر یہ دونوں جماعتیں آج بھی عمل پیرا ہیں۔) اس دوران اس علاقے سے جہاں پرسیندک اور ریکوڈک واقع ہے وہاں سے ایک نیا چہرہ صادق سنجرانی سامنے لایاگیا۔صادق سنجرانی کا خاندان سیندک کاپر اینڈ گولڈ پلانٹ میں بطور ٹرانسپورٹ ٹھیکیدار کام کرتا آرہا ہے۔ سیندک پلانٹ کا منیجنگ ڈائریکٹر بھی اس کے بھائی کو ہی بنایا گیا۔صادق سنجرانی خود پیپلز پارٹی دور کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے آفس میں پانچ سال تک بطور انچارج شکایت سیل کام کرتا رہا۔قدوس بزنجو کے بطور وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے دو مہینے بعد سینٹ کا انتخاب ہوا۔جس میں مسلم لیگ نواز گروپ کے منحرفین نے صادق سنجرانی کو سینیٹر منتخب کیا۔پس پردہ قوتیں سب کام کو منیج کررہی تھیں۔عمران خان،آصف زرداری اور بلوچستان سے سردار اختر مینگل نے سر جوڑ کر دوسرے ہی دن صادق سنجرانی کو بغیر کسی ایک دن کے تجربے کے سینٹر رضاربانی کے مقابلے میں چیئر مین منتخب کرا لیا۔حال ہی میں نامور صحافی اکبر نوتیزئی نے سیندک پلانٹ پر کرپشن کے متعدد اسکینڈلز بشمول انڈر انواسنگ under invoicing خاص کر خام مال اور میٹیریل کی چوری کو طشت از بام کیا ہے۔ جن کی انگشت نمائی براہ راست صادق سنجرانی اور اس کے بھائی پر کی گئی ہے۔ تاہم آج جب ریکوڈک پر قانون سازی کا ڈرامہ رچایاگیا ہے تو اس وقت بھی ان پلیئرز players کے علاوہ شہباز شریف اور اس کی جماعت بھی اس کام میں شامل ہوگئی۔یاد رہے عمران خان کی جماعت اس قانون سازی کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہے۔
12 جولائی 2019 کو ICSID نے حتمی طور پرپاکستان پر 5.98 بلین ڈالرز کا جرمانہ عائد کر دیا۔ تو 20 نومبر 2020 کو TTC اس فیصلے کو لیکر برطانوی ہائی کورٹ میں چلی گئی۔جس میں استعدا کی گئی۔کہ پاکستان ائیر لائن” PIA” جو وہاں کی رجسٹرڈکمپنی تھی اس کے اثاثے ان کے حق میں اٹیج رکھنے کا حکم پاس کرے۔حکومت پاکستان نے اس موو "move” کے خلاف حکم امتناعی لے لیا۔عدالت نے اسٹے stay order تو دے دیا مگر بدلے میں بنک گارنٹی مانگ لی یا پھر متبادل کے طور پر %25 مالیت کی LC کھولنے جس میں فیصلے تک سود کی مد میں اخراجات بھی رکھنے کا کہہ دیا۔پاکستان نے نا تو بنک گارنٹی جمع کی اور ناہی مطلوبہ LC کھولی۔مجبور ہوکر برطانوی ہائی کورٹ نے PIA کے آثاثے جس میں ایک روزویلٹ ہوٹل نیویارک، دوسرا پیرس میں واقع Scribe Hotel اور تیسرا %40 PIA کے شئر جو کہ” منحال” کمپنی کے نام تھے ان سب کو اٹیج کردیا۔پاکستان کی حکومت کو مجبور ہوکر اپنے اداروں کو ہدایت جاری کرنی پڑی کہ وہ اپنے غیرملکی بنک کھاتوں میں کم سے کم رقومات رکھیں۔
اس دوران کینیڈا کی کمپنی ” Barrick Gold "
اور چلی کی انٹا فاگاسٹا "Antofagasta” نے TTC کو خرید کر آپس میں %50 پر کنسورشیم بنالیا۔مگر حکومت پاکستان کی عدالت سے باہر out of court سودے بازی کے نتیجے میں پٹرولیم سیکرٹری محمد محمود نے پہلے سے طئے شدہ معاہدے پر دستخط کردیئے۔جسکی رو سے کنسورشیم کی دوسری بڑی کمپنی Antofagasta اب 900 ملین ڈالرز کے عوض نکل جائے گی۔Barrick Gold خود ہی پروجیکٹ پر 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی۔اور اس کا شئر %50 ہو گا۔جبکہ باقی ماندہ %25 پاکستان کی مرکزی حکومت کے ہونگے۔جن کیلئے رقم کا انتظام, PPL ,OGDCL اور گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ GHPL کی ریاستی ملکیتی کمپنیاں State owned companies کرینگی۔اس نئے معاہدے کی شرائط میں یہ بھی موجود ہے کہ مرکزی حکومت کا اپر ہاتھUpper hand ہوگا تاکہ صوبہ بے دست و پا رہے۔اس لئے معاہدے کی توثیق سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی سے طاقت کے زور پرکروا لی گئی۔ اس سودے میں سب سے بڑا ظلم یہ دکھائی دیتا ہے کہ Smelting and refining پاکستان سے دور کہیں ہوگی۔جس کا کوئی ٹیکنکل مانیٹر نگ سسٹم صوبائی حکومت کے پاس نہیں ہوگا۔6 ارب کا جرمانہ تو وفاقی حکومت کی نااہلی کے سبب ہوا ہے اورادائیگی بھی اسی کی ذمہ بنتی ہے جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ 27 سال گزرجانے کے باوجود بھی کسی حکومتی ذمہ دار پر نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا کوئی ایک مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ اور یہ کہ بلوچستان کے وسائل کو اونے پونے بیچنا وفاقی حکومت کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔یہی حال سیندک منصوبے کے اخراجات کا ہے جوکہ چائینہ کی کرنسی اور وہاں کی مارکیٹ ریٹ کے حساب سے آپریشنل اخراجات نکال کر چین خود اس بات کا تعین کرلیتا ہے کہ کتنا تانبا اور سونا نکالاگیا ہے کیونکہ ریفائنری چین میں ہے اور وہ خود اس پر اختیار رکھتا ہے کہ سالانہ بیلنس شیٹ کیا دکھانی ہے۔اسی طرح سوئی کے مقام سے نکلنے والی چاروں فیلڈز سے گیس کو کنوئیں کے اوپر سے مانیٹر Monitor کرنے کا کوئی میکینزم وجود نہیں رکھتا۔گیس سپلائی کی کمپنیاں خودہی اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ وہ اس سال کتنی گیس نکال چکی ہیں اور کیا فناشل اسٹیٹمنٹ جاری کرنی ہے بلوچستان کا تیسرا بڑا منصوبہ گوادر پورٹ ہے جس کو عرف عام میں سی پیک CPEC کا نام دیا گیا۔چائنا نے اس میں %98 منافع اپنے پاس رکھ کر انوسٹمنٹ کیلئے 307 منصوبے بنائے ان میں سے بلوچستان کے حصے میں صرف 8 منصوبے رکھے گئے جبکہ گوادرسمندری بندرگاہ کے منافع میں بلوچستان کو صفر یعنی zero منافع دیا گیاہے۔ بلوچستان حکومت اوراس کے BRA کے محکمہ کا کوئی نمائندہ سیندک منصوبے، سوئی گیس کی سپلائی لائن کی چیکنگ اور ناہی گوادر کے مالی معاملات پر اپنا کوئی فزیکل عمل دخل رکھتا ہے اور ناہی کسی ٹیکنیکل اور فنانشل آڈٹ کا اختیار رکھتا ہے۔ اس خطے کو قدرت کی طرف سے حاصل منفرد جغرافیائی اہمیت کے باوجود غربت کی شرح یہاں پر 72 فی صد سے بڑھ چکی ہے۔ بلوچستان اس وقت دنیا کے غریب ترین صوبے کا توہین آمیز مقام پہلے ہی حاصل کرچکا ہے۔ایسے میں قیمتی صوبائی وسائل کو اونے پونے بیچنا تباہی پھیلانے کے مترادف ہے اور مزید مایوسیوں کا سبب بنے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ شفاف انتخاب کراکر صوبے کی حقیقی قیادت کو اس طرح کے منصوبوں پر فیصلہ کرنے کا اختیارات دے دیا جائے۔