منصفانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کامشورہ

اداریہ
مسلم لیگ کے رہنماؤں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے اچانک ملک کو مسائل سے نجات دلانے کے لئے منصفانہ،آزادانہ اور شفاف انتخابات کا مشورہ دینا شروع کر دیا ہے۔لیکن فی الحال ملک کا سیاسی منظر ایسا نہیں کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے اس قسم کا مطالبہ کیا جاتا یا حکومت کو ایسا مشورہ دیا جاتا۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں کبھی منصفانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات نہیں کرائے گئے۔صرف ایک بار کرائے جانے والے انتخابات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان شرائط پر پورے اترتے تھے لیکن ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان انتخابات میں عوام کی بے عقلی،سیاسی لاعلمی اورانتظامی امور سے بے خبری کو آزمایا گیا تھامگر عوام نے جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ سیاسی برج بری طرح ہار گئے تو آئندہ عوام پر اعتماد کرنے سے توبہ کر لی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی طبعی اور سیاسی عمر کے آخری حصے میں شہباز شریف نے میڈیا کے روبرو بعض وجوہ کی بناء پریہ انکشاف کیا ہے کہ 2018کے انتخابات سے پہلے اسٹیبلشمنٹ سے ان کی مک مکا ہو گئی تھی(وزارت عظمیٰ اورکابینہ کے ناموں پر اتفاق مک مکا ہی کہلائے گی)مگر انتخابات کے بعد معاملات طے شدہ پروگرام کے برعکس نکلے۔ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کی اعلیٰ قیادت کا اعترافی بیان ریکارڈ پر آجانے کے بعد مزید کسی شہادت یا ثبوت کی ضرورت نہیں۔ مزید تصدیق ان کی زبان سے عسکری اداروں کے حوالے سے کہے گئے اضافی جملوں سے ہو جاتی ہے۔چار دہائیوں تک ملک کے سیاہ سفید کے مالک رہنے والے ایک سیاسی خانوادے کے ترجمان کی حیثیت دیا جانے والا بیان توجہ طلب ہے۔اتنی طویل مسافت طے کرنے کے بعد دیئے گئے اس رنجیدہ بیان سے یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ مشکلات میں گھرے ہوئے سیاسی خانوادے کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو دبے لفظوں میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہماری جانب سے اختیار کردہ سخت بیانیے کو ہماری جذباتی کیفیت کا فطری ردعمل سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے اور اگر ممکن ہو تو مزیدایک بارآزمالیجئے اس بار ہم آپ کو ناراض ہونے کا موقع نہیں دیں گے۔میاں محمد نواز شریف کی بیرون ملک اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کے بعد پر اسرارخاموشی کے جواب میں انہیں مایوس نہ کیا جائے۔
عام آدمی میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے تازہ ترین مطالبے نما مشورے سے یہی سمجھ سکا ہے کہ اب اس سیاسی خانوادے کی سانس پھولنے لگی ہے مزید چڑھائی کی سکت نہیں رہی،جلد ہی مک مکا کی کوئی راہ نہ نکالی گئی تو چلنا ممکن نہیں رہے گا۔لیکن دوسری جانب سے تاحال کسی رعایت کا کوئی اشارہ دکھائی نہیں دیا جارہا ادھر مکمل سنّاٹاہے۔نون لیگ کے وفد کی قاف لیگ سے ملاقات بھی تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔قاف لیگ کو نون لیگی ارکان اسمبلی کے ثابت قدم رہنے کی ضمانت نہیں دی جا سکی۔نئے منصفانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کا مطابہ سن کر تجزیہ کار یہی نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ نون لیگ اپنے اراکین پر بھروسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ورنہ پنجاب اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے راستے میں بظاہر کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔یاد رہے کہ نون لیگ کے بعض اراکین نے کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملاقات کی تھی اور میڈیا پر اپنی قیادت کو چیلنج کیا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرکے دکھائے اسے بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پارٹی قیادت واقعی کوئی کارروائی نہ کر سکی۔لگتا ہے سیاسی بساط پر نون لیگ کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔اس کا ایک سبب خاندان کے اندر اقتدار کے لئے کی جانے والی رسہ کشی بھی ہے۔چچا بھتیجی کے درمیان مخاصمت کی حد تک دوریاں حالات کو اس انجام تک لانے میں زیادہ اثر انداز ہوئیں۔ شاید خاندان کے بڑے اس مرتبہ حالات کی سنگینی کا درست تخمینہ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ عالمی تبدیلیوں کو انہوں نے مناسب وزن نہیں دیا۔سیاست میں ان کے پاس اس بار غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی انہیں ہر قدم انتہائی سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت تھی۔
جب سب سے بڑی سیاسی جماعت حالات کا دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہ رہے تو دیگر چھوٹی جماعتوں سے کسی منظم سیاسی حکمت عملی طے کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لئے کچھ انتظار کرناہوگا۔نوجوان نسل میں سے نئی قیادت ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔سینیئر سیاست دان کسی خوش فہمی کا شکار رہے وہ یہ یقین کئے رہے کہ ملک ان کے بغیر نہیں چل سکے گا،لیکن یہ سوچتے وقت ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں تھا۔ دولت کے انبار جمع کرنے کی دھن میں انہوں نے اپنے گھروں کی دیواریں اونچی کر لیں بلکہ محل نما وسیع و عریض گھرہر شہر میں تعمیر کر لئے۔عوام کی ٹپکتی چھت کا خیال نہیں رکھا۔اپنا علاج بیرون ملک کرنے کو یقینی بناتے رہے جبکہ عام آدمی کے بچے رکشاؤں اور اسپتالوں کے برآمدوں جنم لینے پر مجبور ہو گئے۔جب سیاسی قیادت اس حد تک عام آدمی سے بے نیاز ہو جائے تو پھر سر پر بٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ بھی خوشامد سے اپنے کان بند کر لیتی ہے۔عام آدمی مایوس نہیں تاریخ شاہد ہے عوام کی قیادت عوام میں سے ہی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایک دن عوامی راج قائم ہوگا جدیدٹیکنالوجی عوام کو شعور دینے میں مصروف ہے، آنے والا کل گزشتہ کل سے بہتر ہوگاپرانے سیاست دانوں سے بہتر سیاست کرنے والے اور آج کے عوام سے بہتر قیادت منتخب کرنے والے عوام آج سے بہتر سیاسی منظر سجائیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں