قدِر مشترک(انا پرستی)

ایچ کے آزاد بلوچ

یہ انا پرستی ہی ہے جو انسان کو بدنام و نمود اور اعلیٰ مقام دلوانے کی ضمانت دیتی ہے۔
یہ انا پرستی ہی ہے جو تمام انسانوں کی مشترکہ قدر ہے۔
یہ انا پرستی ہی ہے جو ہر انسان کو قدرت کی جانب سے و دیعت اور طبیعت کی گئی وصف(Trait)ہے۔
یہ انا پرستی ہی ہے جو دیگر تمام کلچر وتہذیب اور سماجی و سیاسی اقدار و روایات کے حامل انسان کی خصلت وجبلت میں پیدائشی شامل ہے۔
یہ انا پرستی ہے اگر اسے دور اندیش وسعت نظر اور مثبت عظیم مقصد کے حصول میں کسی بھی شخص،فرد اور قوم وملک اور ریاست کو اعلیٰ مقام دینے کا باعث بنتی ہے۔
اور یہ انا پرستی ہے جو قومی نمائندگی کے حامل غیر معمولی شخصیت(Extra Ordinary)اور عظیم لیڈر شپ کا ثبوت دیتی ہے۔
یہ انا پرستی ہے جو انسان کو خود اعتمادی،خود داری اور خود اعتقاد بنادیتی ہے۔
انا پرستی،من پسندی اور نرگیست جو مشرق و مغرب کا مشترکہ قدر ہے اور نیچرلیDictatoshipانسان کی مائنڈ سیٹ کا مظہر ہے۔اس سے پہلے کہ ہم آگئے بڑھیں پہلے دو تین سیاسی شخصیات کا ذکر کریں۔
ذوالفقار علی بھٹو وائٹ ہاؤس میں بیٹھے تھے امریکہکے اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن نے ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطف کر کے کہا تم اس وقت وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہو۔تو بھٹو نے برحتی جواب دیا کہ میں وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ضرور ہوں لیکن وائٹ ہاؤس اس وقت میرے بوٹوں /قدموں کے نیچے ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک تیسری دنیا کے ترقی پذیر مملکت کے صدر/وزیراعظم انا پرستی،خود داری اور خود اعتمادی کا جو تاثر ہے اس سے بھٹو کی غیر معمولی شخصیت اور منفرد ہونے کا ثبوت تھا۔
نپو لین بونا پاٹ:نپولین جو ایک ڈکٹیٹر تھا اس سے تو ہر کوئی واقف ہے جب وہ اپنے آخری دنوں میں ایک جزیرے میں قید /نظر بند تھے تو کسی خاتون صحافی ان کے ہاں گئی۔باہم گفتگو رہی۔خاتون صحافی نے ان سے کہا کہ آپ احتجاج کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ میں ایک حاکم ہوں،حکم دیتا ہوں،عوام نہیں کہ میں احتجاج روں،اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک انا پرست،خود پسند ڈکٹیٹر تھے۔
رجب طیب اردگان :شاید میں غلط نہ ہوں کہر جب طیب اردگان کو امریکہ صدر ڈونل ٹرمپ نے ایک خط بھیجا تھا تو اردگان نے خط پھاڑ کے پھینک دیا تھا۔
ایک اور منظر ایک روز میرے آنکھوں سے گزرا کہ امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر ہاتھ ملا نے کے لئے ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ایسے میں چین کے صدر بالکل سیدھا کھڑے تھے جبکہ جو بائیڈن ان کی طرف قدم پڑھ گئے۔
ویسے کوئی بھی سماج ہو اس کے تمام طبقے،عام عوام اور خصوصاً سربراہاں مملکت اور ریاستوں کے حکمران اپنے اپنے حدود قیود اور دائرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی انا پرستی،برتری اور کمتری کے احساس و جزبات کو بانٹنے پڑھتے ہیں اس سلسلے میں امیر لوگ اور بڑے بڑے منصب و مختیار کے حامل لوگ اپنے سے کمتر اور غربت کے مارے لوگوں کو ہر وقت،ہر پل حقارت کے احساس و تاثر دلاتے ہیں کہ اس طرح عام لوگوں کی عزت نفس کو بار بار مجروح کر کے ان کی انا کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔یہاں تک کہ عام عوام اپنی کمتری اور احساس محتاجی کے ہاتھوں مجبور محض ہیں اور یہ کہ زلت ور سوائی اور حقارت ان کی نصیب میں لکھی جا چکی ہے۔
ویسے تو انتہائی نچلے قبطے کی انا پرستی اور احساس ذاتی حیثیت مر چکی ہوتی ہے ان کے دل و دماغ ایسے احساس و جزبات سے بالکل خالی ہوتے ہیں کہ انہیں عموملی زندگی میں کیسے ڈیل(Treat)کیا جاتا ہے۔
اس بارے حضورؐکا فرمان ہے کہ دینے والا ہاتھ ہمیشہ لینے والے ہاتھ سے او پر ہوتا ہے۔پاکستان کی صورت حال اس سے مختلف نہیں جب سے یہ ملک بنا ہے اس کے حکمران ہمیشہ اور باربار ترقی یافتہ ممالک اور انٹرنیشنل مالیاتی اداروں سے قرضے پہ قرضے کے حصول اور امداد پر انحصار کرتے رہے ہیں۔اس طرح انفراسٹرکچر اور مادی ترقی اور نہ ہی سیاسی قیادت بشمول عوام کے ذہنوں میں جمہوری رویے و رجحانات پروان چھڑ سکے بلکہ ترقی وخوشحالی اور نظام سیاست میں جمہوریت اور لبرل خیالات و معقولات کے تناظر بھی مثبت پیش رفت مفقودو معدوم رہی۔حالانکہ سیاسی،سماجی،علمی،معاشی اور ثقافتی معاملات و مفادات میں کچھ لو،کچھ دو کے فلسفے سے نہ صرف مشروط ہوتے ہیں بلکہ یہ شرط اولین ہوتی ہے لیکن اس معاملے وسلسلے میں پاکستان کسی بھی بیرونی ملک کو کچھ دینے کے پوزیشن میں نہیں رہا۔جبکہ بیرونی دنیا سے اپنی ضروریات کے پیش نظر ہمیشہ درخواست کرتا رہا حتیٰ کہ حکمران طبقے کو اب بھکاری کے وصف سے ہر کہیں پکارا جاتا ہے مگر ان کی انا پرستی اور ضد جاگ نہیں جاتی اس لئے کہ آج صورت حال نہ صرف یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے بلکہ صرف اعلان باقی ہے۔حالانکہ میرے خیال میں انسان اس کرہ ارض کے کسی بھی کھونے میں رہتا ہو تو اپنی انا پرستی جو اس کی بنیادی شناخت و پہچان ہے۔راضی بہ رضا اس سے وہ انکار نہیں کرسکتا۔البتہ ایسے سوسائٹی کے جو طبقے ہیں ان میں فرق ضرور ہوتا ہوگا۔مطلب کسی طبقے کی کوئی انا نہیں ہوتی اس کی انا مر چکی ہوتی ہے۔ایک طبقے کی انا خوابیدہ یعنی ختم نہیں ہویا ہوا توتا ہے سب سے اعلیٰ طبقے اس معاملے میں اپنے مد مقابل سے بوقت ضرورت بہت حساس اور ان پرست ہوتے ہیں۔
اس بارے میں بلوچ نفسیات،خصوصاً قدر رویے،انا پرستی پر بہت مختصراً بات کو آگے بڑھاتے ہیں اس لئے کہ یہ ایک الگ سے کالم کا متقاضی ہے۔ویسے تو بلوچ کی تاریخ جو باہمی جنگوں جھگڑوں کی تاریخ ہے۔حسب روایات یہ سلسلہ جاری ہے۔
بلوچ کی ایک خصوصی روایت یہ رہا ہے کہ وہ اگر کسی سے ملنے/ملاقات کے لئے جائے تو وہ اپنے جانے کے مقصد اور مفاد کو اس بات سے مشروط کرتا ہے کہ جس سے ملاقات ہوگئی ہے یا مد مقابل شخص جس سے ملاقات ہوئی ہو اس طرح دونوں شخصیتیں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کیا اس نے آپ کی عزت افزائی اچھے انداز میں کی عزت نفس کا خیال رکھا۔اگر ملاقات اچھے اور خوش گوار ماحول میں ہوا ہے تو ٹھیک ویسے مقصد و مفاد ایک دوسرے کا ثانوی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔جبکہ بلوچ قوم کی آپس میں انا پرستی اور ضد و حسد آگ کے شعلوں کی طرح جلدی جاگ جاتی ہے اور غیروں اور دشموں کے ساتھ یہ قدر اور رویہ کسی حد تک سمجھوتے اور مصلحت کی گنجائش کو رد نہیں کرتی ہے۔مطلب غیر بلوچ سے یہ رویہ کچھ ٹھنڈا پڑھنے کے امکانات خارج از امکان نہیں ہوتے۔ویسے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بلوچ پسماندگی کے باعث انا پرست،خود پسند،گنوار اور رجڈ ہے۔جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔
مطلب بلوچ پڑھے لکھے بغیر ایک ایسی کلچر و تہذیب اور روایات کے امین ہیں جس ماحول اور حالات میں ان کی نسل در نسل کی غیر رسمی تعلیم و تربیت ہوتی ہے وہ ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی ماضی کے سیاسی سماجی جو اختلاقیات کا درس و تدرس اور ورثہ ہے وہ دنیا کو Treat Dealکرنے کے لئے کافی ہے۔البتہ انا پرستی اور تنگ نظری کے جو رویہ ہے بات صرف یہ ہے کہ ان رویے و روایات و اقدار کوکیسے کہاں اور خصوصاً کس زمان و مکان کے محل و موقع کی فہم و ادراک کے حامل کردارو عمل کو بروئے کار لا کر اپنی طاقت و قوت کا ٹھیک وقت پر استعمال و احتمال کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں