آواران پانچ روزہ ڈیجیٹل خانہ شماری تربیتی پروگرام میں کیا ہوا؟

تحریر: شبیر رخشانی
7 جنوری 2023ء کی شام کو ایک پیغام بذریعہ دوست موصول ہوا کہ ڈپٹی کمشنر آواران نے ساتویں ڈیجیٹل خانہ شماری کے پہلے روز اساتذہ کی غیرحاضری پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خبردار کیا ہے مزید غیرحاضری کی صورت میں اساتذہ کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی اس سلسلے میں انہیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ خیر دھمکی آمیز پیغامات کا موصول ہونا آواران جیسے علاقے کے عوام کے لیے اب انہونی بات سی نہیں۔ مگر ڈپٹی کمشنر کی دھکی آمیز پیغام نے کم از کم مجھ کو حیرانی میں ڈالا کہ ایک ڈپٹی کمشنر جو کہ اساتذہ کے تربیتی عمل سے ہوتا ہوا جس پوزیشن پر پہنچا ہے اس سے اس طرح کی زبان اختیار کرنے کی توقع تو نہیں کی جاسکتی۔ البتہ جو ہوا سو ہوا اب اس پر بھلا کیا گلہ بنتا ہے۔ پیغام کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی فہرست بھی موصول ہوئی۔ جنہیں خانہ شماری میں حصہ لینے سے قبل مذکورہ تربیتی پروگرام میں شرکت کرنی تھی۔ مگر حیران کن بات یہ کہ سات جنوری کو شروع ہونے والے تربیتی پروگرام کے لیے اساتذہ کو آگاہ سات جنوری کی شام کو دیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں اساتذہ کو نہ ہی ضلعی انتظامیہ اور نہ ہی ضلعی ایجوکیشن آفیسر کی جانب سے اطلاع دی گئی۔ اور ٹریننگ کی فہرست مرتب کرتے وقت نہ ہی ہیڈماسٹرز سے رائے لی گئی۔ معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ مذکورہ بدنیتی پر مبنی لسٹ محکمہ ایجوکیشن آواران کے ضلعی آفیسر کی جانب سے ڈپٹی کمشنر آفس کو ارسال کیا گیا تھا۔ جب لسٹ متعلقہ اساتذہ جنکو سرکل سپروائزرز اور شمارکنندگان کی زمہ داریاں دی گئی تھیں کو جب موصول ہوا تو ان کے لیے پریشان کن صورتحال یہ تھی کہ ہر ایک کو وہ ایریاز الاٹ کیے گئے تھے جہاں ان کا کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔
ٹیچرز برادری کیا کرتی، سب نکل پڑے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کی جانب۔ مگر وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ تربیتی پروگرام کے لیے سجایا جانے والا میدان یعنی ہال چند ٹوٹی پھوٹی کرسیوں کے سوا خالی تھا نہ ہی اساتذہ کے لیے بیٹھنے کا انتظام تھا اور نہ مائیک اسپیکر سسٹم کا۔ پروگرام بد انتظام صورتحال سے دوچار ہوا۔ ٹیچرز نے ٹریننگ کا بائیکاٹ کیا۔ تب ڈپٹی کمشنر اپنی ٹیم کے ہمراہ چلے آئے۔ اور اساتذہ کو کرسیوں پر بیٹھنے کی گرزش کرتے رہے۔ مگر اساتذہ نے کرسیوں سے اٹھ کر اپنا احتجاج ڈپٹی کمشنر کے سامنے ریکارڈ کرایا۔
یہ کہ ہال میں کرسیوں کا انتظام کیا جائے۔
ساؤنڈ سسٹم بحال کیا جائے۔
دور دراز سے آئے ہوئے اساتذہ کے لیے رہائش کا بندوبست کیا جائے۔
اور یہ کہ وائٹ بورڈ کے بجائے ڈیجیٹل سسٹم کا سہارا لے کر اساتذہ کو سکھایا جائے۔
غرض ڈپٹی کمشنر آواران نے بنیادی مطالبات (ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مطالبات کی نوبت نہ آتی بنیادی انتظامات منتظمین پہلے سے کرواتے) پر عملدرآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے اساتذہ کو ٹریننگ کا حصہ بنایا۔
مگر پانچ روزہ ٹریننگ جس کا آغاز اچھا نہ تھا ٹریننگ اپنے اختتام پر بھی شرکا کو کچھ نہ دے سکا سوائے ذلالت کے۔۔ البتہ ایک کام ضروری ہوا کہ اساتذہ نے خانہ شماری کے لیے ایک ایسی فہرست تیار کرکے ڈپٹی کمشنر آواران کے سپرد کیا جو سب کے لیے قابل قبول تھا۔
واضح رہے حالیہ خانہ شماری ایک ایسے موقع پر منعقد کیے جا رہے ہیں جہاں تعلیمی سال اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے فروری کے ماہ میں جہاں سکول طلبہ امتحانی سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے وہیں ضلعی ایجوکیشن آفیسر آواران کی ناقص حکمت عملی اور تعلیم دشمن پالیسیوں سے بہت سے سکول امتحانی عمل سے رہ جائیں گے۔ کیونکہ ان سکولوں کے کے تمام حاضر باش اساتذہ خانہ شماری میں مصروف ہوں گے اور ان کی غیرموجودگی میں سکولوں کو تالہ بندی کا سامنا ہوگا۔ آئی ٹی لیب اسسٹنٹ جن کو خانہ شماری عمل میں شامل کرکے ڈیجیٹل خانہ شماری کو آسان بنایا جاتا مگر ضلعی ایجوکیشن آفیسر نے یہاں بھی آواران کے تعلیمی نظام کو تباہی کی جانب دھکیلنے کے لیے انتقامی اقدامات سے کام لیا ہے۔ گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے حالیہ خانہ شماری میں جس طرح اساتذہ کی نمائندگی کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ سیکرٹری ثانوی تعلیم پر بھی بھاری زمہ داری بھی آجاتی ہے کہ وہ ضلعی ایجوکیشن آفیسر کی تعلیم دشمن پالیسیوں کا جائزہ لے کر ان کے خلاف محکمانہ کاروائی عمل میں لائے تاکہ آئندہ ایسی کوتاہیاں سرزد نہ ہوں اور اساتذہ کو تذلیل ہونے روکا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں