کوئٹہ میں پینے کاپانی نایاب ہوگیا

رپورٹ: یحییٰ ریکی
واساکے نلکوں سے پانی نہیں آتا جس کی وجہ سے ہمیں شدیدمشکلات کاسامناکرناپڑتاہے، خصوصاًگرمیوں کے موسم میں گھریلوضروریات پوری نہیں ہوتیں، ہم سوچ رہے ہیں کہ گھرمیں اپناگارڈن ختم کردیں۔ یہ کہناہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے قمبرانی روڈارباب گیٹ، انارباغ کالونی کے رہائشی عادل نذیرکا۔ عادل نذیربتاتے ہیں سابق ادوار پانی ضروریات کوپوری کرنے کے لئے انارباغ کالونی سے ملحقہ اقصیٰ گلی میں سرکاری ٹیوب ویل لگایاگیاتھا جس سے ہزاروں گھرانوں کو فراہم کیاجارہاتھا۔ناقص مٹیریل اورغیرمعیاری مرمت کی وجہ سے آئے روزٹیوب ویل خراب ہونامعمول بن چکا تھاجس کی وجہ سے لوگوں کو پانی کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں، عادل نذیر کے مطابق 2017کے بعدمذکورہ سرکاری ٹیوب ویل سے پانی کی سپلائی کاسلسلہ بندہوگیاہے جس کے بعدوہ نجی ٹینکرکاپانی خریدنے پرمجبورہوگئے۔فی ٹینکرپانی 1800روپے تک پہنچ چکاہے، اورگھریلوضروریات کوپوراکرنے کے لئے ماہانہ 4سے5ٹینکرپانی کی ضرورت ہوتی ہے جس پر9000روپے کے لگ بھگ اضافی مالی اخراجات آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ من مانے پیسے بٹورنے کے باوجود ٹینکرمافیاکے نخرے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں، جب ضرورت ہوتواس وقت ٹینکرکاپانی نہیں پہنچتابلکہ بیشتراوقات انہیں اپنی باری کے لئے ایک سے دودن پانی کے لئے انتظاربھی کرناپڑتاہے، اس دوران پانی کا حصول انتہائی مشکل بن جاتا ہے۔عادل نذیر کے والدمحکمہ پی ٹی سی ایل میں ملازم ہیں حالیہ مہنگائی کے دورمیں گھریلوضروریات کے ساتھ پانی کے اخراجات پوراکرنامشکل ہوگیا ہے۔ عادل کے گھرمیں چھوٹاساگارڈن بھی ہے جہاں مختلف قسم کے پھول سجائے ہوئے ہیں تاہم پانی کی قلت کے باعث اکثرپھول خشک ہوکرمرجھاجاتے ہیں۔قلت آب کی وجہ سے وہ سوچ رہے ہیں کہ پھولوں کاگارڈن ختم کریں کیونکہ اب توان کے لئے اخراجات پوراکرنامشکل ہوتاجارہا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیاہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں بصورت دیگر بلوچستان کے 28سے30اضلاع میں آئندہ پانچوں سالوں میں خشک سالی ہوگی جس سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ معاشی بحران کا بھی خدشہ جنم لے سکتا ہے،ہم پانی کی انسکٹرکشن نہیں بلکہ مائننگ کررہے ہیں،پانی کومحفوظ بنانے کیلئے قوانین پر سخت عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔کوئٹہ میں سماجی تنظیم اسلامک ریلیف کے زیراہتمام حکومت بلوچستان کے تعاون سے منعقدہ’نیشنل واٹر کانفرنس بلوچستان‘کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے سیکرٹری پبلک ہیلتھ بلوچستان انجینئرنگ صالح محمد بلوچ نے کہاکہ قلت آب کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کوئٹہ شہر کے اطراف میں ڈیمز کی تعمیر کاکام جاری ہے جس کے تحت مانگی ڈیم سے کوئٹہ شہر کو یومیہ 8ملین جبکہ برج عزیز خان ڈیم سے 12ملین پانی کی فراہم کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ حکومت بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے مزیداقدامات اٹھا رہی ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ،ایران سرحد سے منسلک ضلع چاغی اور گوادر میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کے سنجیدہ اقدامات اٹھا ر ہے ہیں۔کوئٹہ کے پرہجوم علاقے ہدہ میں بھی پانی نایاب ہوچکاہے۔ 30سالہ فہیم رئیسانی جوگیزئی اسٹریٹ کے رہائشی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ واسانے نلکے تولگائے مگرجب سے انہوں نے ہوش سنبھالاہے پانی کے پائپ لائنیں تبدیل نہیں کئے گئے، واساکے نلکوں سے مہینے میں بمشکل صرف دومرتبہ بیس سے پچیس منٹ تک پانی آتا ہے جوپینے کے قابل نہیں ہے، پائپ لائنیں جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوگئے ہیں جس سے گندے پانی کی آمیزش کامسئلہ بھی بدستورجاری ہے، متعددمرتبہ آوازاٹھایامگرکوئی شنوائی نہیں ہوتی۔انہوں نے بتایاروزمرہ امورکی انجام دہی اورگھریلواخراجات پوری کرنے کے لئے ماہانہ تین ٹینکرپانی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے وہ ٹینکرمالکان کو فون کرکے منگواتے ہیں، گرمیوں کے موسم میں ایک ہفتہ قبل ٹینکرمافیاکوفون کرکے اطلاع دیناہوتا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ٹینکرمافیافی ٹینکرپانی کے 2400روپے لیتے ہیں، حالیہ مہنگائی کے دورمیں متوسط اورغریب طبقے سے تعلق رکھنے والے سفیدپوش افراد کیلئے پانی کے اخراجات پوری کرنامشکل ہورہا ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ واساکوٹھیک کرنے کیلئے عملی طورپراقدامات اٹھائے جائیں اورمبینہ طورپرفرائض سے غفلت برتنے والے عناصرکوکیفرکردارتک پہنچایاجائے اورشہر میں ہانی سپلائی یقینی بنایاجائے۔پانی کے بحران کے حوالے سے ایم ڈی واساکیاکہتے ہیں؟بین الاقوامی اسٹینڈرڈے مطابق ایک شخص کوروزانہ ڈیڑھ سوگیلن پانی ملناچاہئے، تاہم ایم ڈی واساکے مطابق ہم اتنے ترقی یافتہ نہیں ہیں اورروزانہ20گیلن کے حساب سے شہر میں 6کروڑگیلن پانی کی ضرورت ہے مگرہم صرف تین کروڑروڑگیلن فراہم کررہے ہیں، کوئٹہ شہر میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پوراہفتہ پانی سپلائی نہیں ہوتا اورواسا 7 سے 8دن بعد پانی فراہم کرتا ہے، محکمہ واسا 88ہزارگھریلو6ہزارکمرشل اور480پرائیویٹ واٹرسپلائی کررہا ہے۔یہ کہناہے منیجنگ ڈائریکٹر واسا حامد لطیف راناکا۔ انہوں نے کہاکہ کوئٹہ شہر 1985ء میں 50ہزار افراد کیلئے بنایاگیاتھا مگروقت کے ساتھ ساتھ شہر کی آباد ی میں اضافہ ہوتاگیا اور اب کوئٹہ کی آبادی 30لاکھ کے لگ بھگ پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات درپیش ہیں۔کوئٹہ شہر میں واسا کے زیرانتظام400جبکہ پی ایچ ای کے تحت 150ٹیوب ویلزفعال ہیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ اوروولٹیج کی وجہ سے واسا کے چندایک ٹیوب ویل غیرفعال ہیں۔انہوں نے بتایاکہ سیلاب کے وقت 150کے لگ بھگ ٹیوب خراب ہوگئے تھے جن کو فعال کردیاگیاہے، واسا، پی ایچ اورکنٹونمنٹ بورڈمل کرکوئٹہ شہرکوسواتین لاکھ گیلن پانی فراہم کررہے ہیں۔ٹیوب ویلوں کی خرابی اورمرمت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلے ہم کے ایس پی اورگرینڈفورس کی مشینری استعمال کرتے تھے جواب کافی مہنگے ہیں، اب چائناکی مشینری ہماری دست رس میں ہے جوبآسانی دستیاب ہے اورہم وہ استعمال کررہے ہیں جوبجلی کی وولٹیج میں کمی وبیشی کے باعث جلدی خراب ہوجاتے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ تیس سال پرانے ٹرانسفارمرہیں جن کوتبدیل کرناہوگاورلڈبینک کے تعاون سے ”اسٹرینتننگ آف واسا“کے نام سے اسکیم شروع کررہے ہیں جس کے تحٹ مشینری، کیبل اورٹرانسفارمرزکو تبدیل کریں گے۔ صوبائی حکومت مالی مشکلات سے دوچارہے جس کی وجہ سے ہمیں تنخواہوں کی ادائیگی میں دشواری کاسامناکرناپڑرہاہے، تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان اورصوبائی حکومت کاتعاون ہمارے ساتھ ہے، انہوں نے بتایاکہ 2018سے2022تک واساکے اوپرکیسکو کے 130کروڑروپے بجلی کابل واجب الاداتھے جو وزیراعلیٰ بلوچستان نے اداکئے۔ملازمین کی غیرحاضری کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں کمی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ سیاسی بھرتیاں ہوئی ہیں اورملازمین غیرحاضرہیں تاہم کوشش ہے کہ تمام ملازمین کو حاضرکیاجائے، اوراب تک غیرحاضری ہونے والے6ملازمین کو معطل کیاہے۔منیجنگ ڈائریکٹرواسانے محکمہ خزانہ حکومت بلوچستان کے مشاہدات کے مطابق رولزکے برخلاف460ملازمین کی بھرتی کے عمل کازکرکرتے ہوئے بتایاکہ ”میری کوشش ہے کہ ان کو فارغ نہیں کیاجائے، واساکابورڈ2008ملازمین کیلئے بجٹ کی منظوری دیتا ہے جبکہ ہمارے پاس 1818کے لگ بھگ ملازمین ہیں اورفی ٹیوب ویل ساڑھے4ملازمین ہوں گے اورہم چوبیس گھنٹے سروسزفراہم کرتے ہیں اورہمیں ٹیوب ویلوں کو چلانے کیلئے پانچ ملازمین کی ضرورت ہے۔مجموعی طورپرمحکمہ واسا2020ملازمین کی ضرورت ہے۔“انہوں نے کہا کہ ملازمین میں ایم ڈی واسا، چیف انجینئر،ڈائریکٹرریونیو، ڈائریکٹرکیسکو،سپرنٹنڈنگ انجینئرنگ سمیت 15سب انجینئر12اسسٹنٹ انجینئر3 ایکسین، 96سپروائزراور30کلر ک شامل ہیں۔واسا1989ایکٹ کے تحت ایک لاکھ کی آبادی میں واساٹیک اوورکرے گا،2004میں صوبائی حکومت نے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بناکراس کو کم کرکے کوئٹہ کی حد تک محدودکردیا، تاہم اندرون بلوچستان اورملک کے دوسرے شہروں سے لوگ کوئٹہ کارخ کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی بڑ رہی ہے۔انہوں نے مزیدبتایاکہ واٹرایکٹ2004کے سیکشن کے تحت کوئٹہ کاپانی واساکی ملکیت ہے اورجواستعمال کرے گاوہ اس کیلئے ایکوفرچارجزکی مد میں ادائیگی کرے گا، اس طرح کے صارفین پر15ہزارفکس رقم مقررکیا ہے اوروہ بھی ادانہیں کرتے۔واٹرایکسپرٹ واکنامسٹ ڈاکٹرپرویز امیرنے حکومت اور عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان میں حالیہ مون سون میں 12ملین ایکڑ فٹ پانی برسا ہے لیکن ہم صرف 2ملین ایکڑ فٹ پانی محفوظ کرسکے ہیں بلوچستان میں اس وقت18بیسن ہے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں سخت اثرات کاسامنا کرناپڑسکتاہے دنیا کو معیاری پروپوزل لکھنی ہوگی کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہم کن نقصانات کاسامنا کررہے ہیں،انہوں نے کہاکہ میں 2010اور 2022دونوں سالوں کے دوران سیلاب اور بارشوں کودیکھاہے اس بار بلوچستان موسمیاتی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہواہے موسمیاتی تبدیلی کے جواثرات ہے بلوچستان کے 28سے30اضلاع آئندہ پانچوں سالوں میں خشک سالی کاسامنا کرسکتی ہے جہاں لوگوں کو کھانے کے لالے پڑیں گے،موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ معاشی بحران کا بھی خدشہ ہے۔ظہوراحمدبازئی نے حکومت بلوچستان سے اپیل کی کہ کوئٹہ کے اطراف میں جو ڈیمیں تعمیر ہوئی ہے ان کی اسسمنٹ کرائیں تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے مہاجرین ممکنہ اثرات سے محفوظ رہیں۔شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے چیف انجینئر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ آغا عمران شاہ نے کہاکہ بلوچستان میں اس وقت18بیسن ہے لیکن ان سب کی پیتھالوجی مختلف ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن یہاں پالیسی کیلئے غلط ڈائریکشنز اپنائے گئے ہیں حالات اور واقعات کومدنظررکھتے ہوئے اقدامات کی ضرورت ہے۔شہریوں نے حکام بالاسے مطالبہ کیا ہے کہ قلت آب کامسئلہ حل کرنے کیلئے لی بنیادوں پراقدامات اٹھائے جائیں اورشہر میں پانی کے پرانے اوربوسیدہ پائپ لائنوں کی مرمت کرکے ان کی حالت کوبہتربنایاجائے۔