عطا شاد لٹریری فیسٹیول

تحریر : اخلاق احمد
عطا شاد بلوچی اور اردو زبان کے شاعر تھے جوکہ یکم نومبر 1939ء کو سنگانی سر تُربَت ضلع کیچ میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام محمد اسحاق تھا۔ شروع شروع میں انہوں نے شاعری اردو زبان میں کرتے تھے اور بعد میں بلوچی زبان میں شاعری کرنا شروع کیا گیا۔ اُس نے بلوچی ادب کو بہت فروغ دیا گیا اور بلوچی زبان میں آپ ایک مہشور اور عظیم شاعر، دانشور اور اسکالر مصنف تھے۔ آپ نے 13 فروری 1997ء کو کوئٹہ میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس سال میں 13 فروری سے لیکر 15 فروی تک آپ کی یاد میں بلوچستان اکیڈمی تربت کے چئیرمین غفور شاد صاحب کے جانب سے ایک لیٹریری فیسٹیول کا منعقد کیا گیا جس میں 26 بک اسٹال بھی منعقد کیا گیا۔ بلوچستان کے دور دراز علاقے کے شاعر، مصنف، اسکالر، نقاد، تاریخ دان، سْیاستدان، اور ایجوکیشنلسٹ نے اُس ادبی میلہ میں شرکت کیا۔ آے آر داد بلوچی زبان کے شاعر اور عطا شاد کے نقاد ہے اُن کو سوال کیا گیا عطا اپنی دور میں کیسے شاعر تھے اور انُکی شاعری کی اثرات موجودہ دور کے شاعروں پہ کیا ہے۔ انہوں جواباً میں کہا آپ نہ صرف ایک عظیم ہستی شاعر تھے بلکہ ایک دانشور اور ادبی شخص تھے جہنوں نے بلوچی لیٹریچر کو ایک نیا شکل دیا اور بلوچی زبان کو گم نام ہونے سے بچا لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کے مطالعہ کرنے والے کون ہیں اور آپ کو کیسے پڑھ کر اور سمجھتے ہیں۔ لوگ اکثر آپ کی شاعری کو مشکل سے سجھتے ہیں۔اور پھر آپ کی شاعری نے خاص کر اس دور کے شاعروں کو بہت دلچسپی اور شاعر بنےکا شوق عطا چُکی ہے۔
دوسری جانب سے بلوچستان کے تاریخ دان ڈاکٹر فاروق بلوچ، ڈاکٹر واحد بزدار، ڈاکٹر شاہ محمد مری اور ڈاکٹر بدل خان نے بلوچستان کی تاریخ حوالے سے بات چیت کی تاکہ بلوچ قوم پتہ چلے کہ بلوچ کا معنی کیا ہے اور بلوچ کہاں سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق صاحب کا کہنا تھا کہ بلوچ ایک نسل نہیں بلکہ ایک بڑی قوم ہے جو کئی ہزاروں سالوں پہلے وجود میں آئے تھے۔ بلوچستان کے معیشت، سماج اور ثقافت کے بارے میں بھی بات چیت ہوئی۔ اس کے علاوہ بلوچستان تعلیمی نظام کے حوالے سے برکت اسماعیل، عابد حسین، عتیق الرحمن اور مہناز اسلم کے درمیان میں ڈسیکیشن انقعاد ہوئی جس میں انہوں نے کہا ہماری تعلیمی نظام بلکل پیچھے رہ گئی ہے بمقابلہ پاکستان کے دیگر صوبے سے۔ بلوچستان میں تعلیمی ترس ایک پہاڈی کی طرح اونچا ہوتا جا رہی ہے۔ عتیق الرحمن نے کہا بلوچستان کے ٹیکسٹ بکس ہر سال میں نظر ثانی کرنی چائے کیونکہ یہ بکس وہی کے وہی ہیں ان میں کوئی چینجز نہیں لایا گیا ہے اور انہوں نے مشورہ دیا کہ ہر وقت ٹیچروں کو ٹریننگ دیا جائے کہ اسٹوڑنٹس کو کیسے اچھے پروڈیوسرز بنا پائے۔ اور یہ بھی مشورہ دیا اگر بچوں کو اپنی زبان میں چیزوں کو پڑھایا جائے وہ جلدی چیزوں کو حاصل کر سکتے ہیں۔ برکت اسماعیل نے کہا کہ بلوچستان کے ٹیکسٹ پبلشرز وہ لوگ ہیں جہنوں نے شاہد ایک کتاب نہیں پڑھی ہوگی تو یہاں خواہ ماخواہ تعلیم پچھے رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ اُس تین زورہ ادبی میلہ میں لوگوں نے دلچسیی ظاہر کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اس ادبی میلہ میں شرکت کیا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے بلوچی ادب کو دوبارہ کاشت کئے جا رہے تھے۔ خوش قسمتی سے کم و بپش 35 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیچ کے لوگوں کے اندر پڑھنے کی بہت ذوق و شوق ہیں۔ نوجونون نے اپنے اعظیم ہستیوں کو تَہ دل شکریہ ادا کیا گیا اور امید رکھے کہ آنے والی سالوں میں بھی ایسے بلوچی ادبی میلے انعقاد کیا جائے گے چونکہ میں ایک ادب طالب علم کے ناطے ایک چیز کو محسوس کیا کہ ہماری ماردی زبان بلوچی بلکل زوال کی طرف جا رہی ہے کیونکہ اس میلہ میں بلوچ لوگ اپنی بلوچی گفتگو میں انگلش اور اردو مکس کرکے بول رہے تھے اور مجھے سب کچھ بُرا لگ رہا تھا کیونکہ ہماری زبان کے اسکالر، شاعر، تاریخ دان بھی اپنی بولوں میں دوسری زبانوں کی لفظوں کو شامل کر کے بول رہے تھے۔ ایسا کرنا تو خود بخود دوسری زبان کی الفاظ بلوچی لفظوں کو ریپلیس کر کے بلوچی زبان کو پیچھے دھکیلتی ہے۔ اگر ایک لفظ بلوچی زبان میں دستیاب نہیں ہیں تو ٹھک ہے تو دوسری زبان کی ورڈ کو لیکر اپنی میسج کو پورا کرے۔ جو ہماری زبان میں وہ الفاظ موجود ہیں جسکی جگہ دوسری زبانوں کی لفظوں کو بلوچی زبان میں استعمال کرنا بلوچی زبان کی زوال کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر دیکھا جائے بلوچی زبان پہلے ہی پیچھے چلا گیا ہے کیونکہ بلوچی زبان میں پڑھنے اور لکھنے والے کی تعداد بہت بہت کم ہے وہ زبانیں جلدہ ترقی کرتے ہیں جس کے پڑھنے اور لکھنے والے اپنی زبان پہ بہت توجہ دیتے ہوئے دوسری زبان کی لفظوں کو اجازت نہیں ہوتی کہ انکی زبان میں ریپلیسمنٹ لے سکے۔ الحمداللہ بلوچی زبان میں اپنی ہر طرح کی لفظیں موجود ہیں دوسری زبانوں کی لفظوں کو چوری کرنے کی ضرورت نہیں ہیں۔ میرا مشورہ ہے بلوچ نوجونوں سے پلیس اپنی زبان پر کام کریں اور انکو گمنام ہونے سے بچا لیں کیونکہ اگر ہم نوجْوان نسل اپنی زبان کو ترقی نہیں دے گے اور کون دے گا۔ دوسری زبانوں کو پڑھنے اور لکھنے میں کوئی عرج نہیں ہے لیکن دوسری زبانون کی الفاظ کو ہر گز اپنی زبان میں شامل نہ کریں۔ حکومت بلوچستان سے گرازش ہے کہ بلوچی زبان کو فروغ دیں اور بلوچستان کا ہر اسکول میں بلوچی ایک سبجکٹ شکل میں پڑھایا جائے تاکہ بچے آسانی سے لیکچروں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کو بھی اہمیت دے سکے۔