ڈاکٹر عبد الحئی بلو چ (مرحوم)

(ایک عہد سا ز شخصیت)
تحر یر: شاہ زیب بلو چ ایڈ و کیٹ
قابل احترام ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ کی پہلے برسی کی منا سبت سے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اْنکی سیاسی زندگی کے اْس پہلو کو اپنی تحر یری شکل میں لاؤں جو بطو ر مر کزی ڈپٹی آرگنا ئز ر نیشنل ڈیمو کر یٹک پا ر ٹی میں نے انکے ساتھ گزارے تھے تاکہ نیشنل ڈیمو کر یٹک پا ر ٹی کے شریک بانی سربراہ کی حیثیت سے انکے سیاسی کردار پر روشنی ڈال سکوں اور یہ ضروری بھی ہے کہ ان سیا سی کا ر کنا ن کیلئے جو آج نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے سیا سی کا رواں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی ابہام مو جو د نہ ہے کہ بلو چ معا شرہ آج سے تین دہا ئیوں پہلے تک ایک مضبو ط قبائلی نظام میں جکڑا ہوا تھا، جس میں وقت کی بدلتے تبد یلیوں کے ساتھ قبا ئلی سرداروں نے سیا ست میں اپنے مضبوط پنجے گاڑ لیے تھے اور عام سیاسی کارکنان کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے بلوچ قوم کو درپیش مشکلات کیلئے تیار رکھ سکیں۔ یہاں پر بلوچ انجمن اتحاد کا ذکر ضرور کروں گا، جس نے 1920ء میں بلوچ قوم پرستی کے نظرئیے سے جڑ کر میر عبدالعزیز کرد کی سربراہی میں انگریز نو آبادیاتی نظام کیخلاف قلم اور کاغذ کے ذریعے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا، بعد میں انجمن نے قلات اسٹیٹ نیشنل پار ٹی کے نام سے خود کو منسوب کر کے انگریزی قبضہ گیریت کے خاتمے تک سیاسی تحریک چلائی، جو بلآخر 27 مارچ 1948ء کو ایک دفعہ پھر بلوچ قومی حق خودارادیت کو پاؤں تلے روندھ کر نو آبادیاتی نظام کی ایک نئی لہر کو ”جبر و تشدد“ کی پالیسیوں، زیر سایہ شروع کردیا گیا تھا، جس میں شہزادہ عبدالکریم کی مسلح بغاوت کو دبانے کیلئے مکمل طاقت کا استعمال کیا گیا اور قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلوچ کی سیاسی آواز کو بھی دبا دیا گیا تھا۔
1950-60ء کی دہائیوں میں مزید دو مسلح بغاوتوں کو کچلنے کے بعد طالبعلموں نے بلوچ وانندہ گل کی بنیاد ڈالی، جسے انگریزی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا نام دیا گیا اور محترم ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے بطور سربراہ (چیئرمین) اس تنظیم کی رہنمائی کی اور بلوچ قومی حقوق کے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، زمانہ طالبعلمی کے بعد نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے پلیٹ فارم سے وفاق میں قومی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے بلوچ قومی حقوق کیلئے آواز بلند کرتے گئے اور ان کا شمار بلوچستان کے ان قومی اسمبلی کے ممبران میں ہو تا ہے،جنہوں نے سر دار خیر بخش خان مری اور Jeniffer-Moosa کے ساتھ ملکر آئین پاکستان 1973 میں دستخط نہیں کیئے تھے کیونکہ آئین میں بلوچ قوم کی مطلوبہ نمائندگی اور وسائل پر دسترس نہ دینے کی وجہ سے بلوچ کو اقلیت میں تبدیل کر کے انکے ساحل و سائل کو ادارہ جاتی نظام (Institutionalized System) کے تحت قبضہ کرلیا گیا تھا۔
محترم ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اپنی سیاسی زندگی میں متعدد سیاسی جماعتوں کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی قومی ذمہ داریوں کو نبھاتے گئے، اس دوران ان کی جدوجہد سیاسی و جمہوری بنیادوں پر گامزن رہا۔ ان کی سوچ اس فکر پر قائم تھی کہ پہلے مرحلے میں ریاستی اداروں میں اسٹیبلشمنٹ (Establishment) کے کردار کو ختم کرکے جمہوری بالادستی کا نفاذقائم کیا جائے، اور دوسرے مرحلے میں بلو چ قومی و حدت کو مضبوط و مستحکم رکھنے کیلئے ایک منظم سیاسی تحر یک چلائی جائے، اس با بت انکی سیا سی زند گی مکمل طور پر ایک مستقل جد و جہد پر گا مزن تھی۔
محترم ڈاکٹر عبد الحئی بلو چ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بلو چ کے بآلا دست طبقہ سر دار اور سرمایہ دار سے کوئی تعلق نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی نظر یا تی سو چ و فکر قائم رکھنے پر اپنے آبائی علا قے بھا گ میں سر کا ری حما یت یا فتہ سردار کے ذریعے دبا نے کی کوشش ہوتی رہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے مشکل حالآت کا سامنا کر تے ہوئے اپنی سیا سی حکمت عملیوں سے قبائلی تنگ نظری کا مقابلہ کرتے گئے اور بلو چ قومی حقوق کے جد وجہد کو جا ری رکھا۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب کی سیا ست سے اختلا ف ممکن ہے، لیکن اس اختلا ف کی بنیا د پر انکے سیا سی کردار کو نفی نہیں کیا جاسکتا اور ضرور ی ہے کہ مثبت روئیے کو اپنا تے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے حقیقی جدوجہد سے سیا سی کا ر کنان کو آگاہ کیا جائے۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور لا زمی ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی سیا سی میدان میں بے شما ر غلطیوں کے مر تکب ہوچکے ہو ں گے لیکن یہ واضحح ہے کہ ڈاکٹر صاحب بلو چ کش پالیسیوں کا حصہ کبھی نہیں ہوئے اور نہ ہی سر کاری آلہٰ کا ر کی حیثیت سے بلو چ قومی تحر یک کو سبو تاژ کر نے کیلئے معا و نت فراہم کی ہو۔
میں اور میرے سیا سی رفقا ء از خو د ز ما نہ طا لبعلمی کی سیا سی سر گر میوں سے فارغ ہو نے کے بعد ہم نے فیصلہ لیا کہ ایک روشن خیال سیا ست کو اپنا کر بلو چ قومی جد و جہد میں پنا کر دار ادا کر سکیں، اور ہم نے ملکر ڈاکٹر عبدالحئی بلو چ صاحب کے ساتھ انضمامی عمل کے ذریعے نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کی بنیاد ڈالی جس میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب کو مرکزی آرگنائزر اور مجھے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا اور نومبر 2018ء میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی سربراہی میں شال (کوئٹہ) پریس کلب میں مرکزی پریس کانفرنس کے ذریعے پارٹی کے اغراض و مقاصد بیان کیئے۔
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب کی سربراہی میں نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی نے چار مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے اجلاس اور متعدد سیمینارز، تعزیتی ریفرینسز، کارنر میٹنگز، پریس کانفرنسز منعقد کیئے گئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب سے میری ذاتی قربت نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے قیام سے ہوا تھا، جس میں اس مختصر مدت کے دوران ان سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملا اور انکے سیاسی جدوجہد یقینا ہمارے لیئے مشعل راہ سے کم نہیں ہے۔
سیاست میں اختلاف رکھنا یقیناً ایک لازمی جز ہے اور بدقسمتی سے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سیاسی اختلافات کی وجہ سے راستے الگ ہوگئے تھے، لیکن بحیثیت ایک سیاسی کارکن یہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ مثبت رویوں کو اپناتے ہوئے انکی سیاسی زندگی کو خراج تحسین پیش کرسکوں، کیونکہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ صاحب کی سیاسی جدوجہد مستقل بنیا دوں پر بلو چ محکومیت اور ظالم کے خاتمے کیلئے تھی اور ان راہوں میں بے شمار تکالیف برداشت کرتے ہوئے جمہوری اصولوں کی مضبو طی واستحکام کیلئے سرکارو سردار سمیت تنگ نظر رویوں کا مقابلہ کرتے گئے، آخر میں انکے لیئے یہی الفاظ ادا کروں گا کہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بلوچستان کی تاریخ میں ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر یا د رکھے جائیں گے اور انکی سیاسی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ بالخصوص انکی مستقل مزاجی ہمت اور سیاسی حکمت عملیاں بلوچ سیاسی کارکنان کیلئے نئی راہیں کھولتے ہوئے بلوچ قومی تحریک کے سیاسی ہدف تک پہنچنے میں معاونت فراہم کرتا رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں