پاکستان کے غدار کون ہیں

تحریر : برکت مری
جب ہم ملکی سیاست کو دیکھتے ہیں یہ تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ملک کا اصل وفادار کون ہے اور ملک کا غدار کون ہے 2013ءمیں جب مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر ملک کے وزیر اعظم بنے تو ملک کے دوسرے بڑے جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جمعیت علمائے اسلام ایم کیو ایم پاکستان مسلم ق کے ساتھ علامہ قادری ودیگر اکھٹے ہوکر انہوں نے نواز شریف کی حکومت کو ملک دشمن ملک کا غدار قرار دیا انہوں نے باقاعدہ ملک گیر تحریکیں چلائی کنٹینر پر کنٹینر لگائے ملکی معیشت کو تباہ کن معیشت قرار دینےوالے اسی معیشت پر رونے والوں نے ہر جلسے جلوس پر پیسوں کی برسات کی کارکنوں کی ریٹنگ سے پینا فلیکس کی سجاوٹ تک اربوں روپے پانی کی طرح بہائے یہ پیسے کہاں سے آئے یہ وہی پیسے ہیں جو غریبوں کی ٹیکسوں سے ملکی خزانے میں جمع ہوئے اور انہوں نے بے دریغ لوٹے ہیں حیرانگی کی بات یہ ہے کہ کنٹینر پر وہ تمام چہرے یک بہ یک موجود تھے جو آج پی ڈیم ایم کی صورت میں ہیں انکی تصویر آج بھی آن دی ریکارڈ ہیں صرف اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کی تصویر ان میں نہیں تھی تمام جماعتوں نے مسلم لیگ ن کو ملک کا غدار ملک کا دشمن قرار دیا جب 2018ءکے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تو پھر رفتہ رفتہ احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا پھر وہی ہوا جو گزشتہ دور حکومت کے ساتھ ہوا کل آل پارٹیز آج پی ڈی ایم بنی پھر مہنگائی مارچ عوام بچاو¿ ملک بچاو¿ کی تحریکیں شروع ہوئیں کل اور آج میں صرف پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کی تصویر میں فرق ہے جمعیت پی پی پی نے نواز شریف کو ملک دشمن قرار دے دیا آج انکے ساتھ حکومت کے مزے کررہے آج نواز شریف ملک دوست ہے کل غدار تھا کل پی ٹی آئی والے ملک کے رکھوالے تھے آج غدار ہیں ایسی کوئی جماعت نہیں ہے کہ جنہیں اپوزیشن نے ملک کا غدار نہ کہا ہو بے چارے عوام کل اد±ھر زندہ باد مردہ آج اس حکومت کے ساتھ زندہ باد مردہ کل اس حکومت کے ساتھ مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے آج اس حکومت کے ساتھ شدید مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے نہ کل غریبوں کی تقدیر بدلی نہ آج ان غریبوں کی تقدیر بدلا ہے کبھی غدار کبھی وفادار کے نام پر امیر امیر تر ہوئے غریب آج بھی دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں
ملک کے سب سے بڑے رقبے والا و معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان کی سرزمین سے لیکر بلوچستان کی سیاست ہر دور میں تجربے کا مرکز رہا ہے کبھی ایٹمی پروگرام کے تجربہ گاہ کبھی سیاسی تجربہ گاہ اس قدر سیاسی انجینئرنگ کی گئی ہے کہ جو شخص ہر سال پارٹی بدلتے رہتے ہیں وہی ہر اسٹیجوں پر سیاسی نظریے کا راگ الاپتے ہیں جو پارٹی کے آئین و منشور کی بات کرتے ہیں وہ خود نہیں جانتے کہ آئین و منشور کیا ہے گزشتہ سال 2018ءکے الیکشن سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی (باپ ) یکدم منظر عام پر آیا نیشنل پارٹی بی این پی عوامی بی این پی مسلم لیگ ن و ق پی پی و پشتون جماعتوں کے نمائندوں نے حکم اعلیٰ کے پیغام پر باپ پارٹی جوائن کرنا شروع ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں نے اس سلسلے پر رشک کرتے ہوئے ہر سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی جلسے جلوس مجالس دیوانوں میں باپ کو مختلف ناموں و مسخروں طنزیوں سے اسکی خاطر تواضعی کی جائز وناجائز کے القابات سے گریز نہیں کی مخالفین مخالفت کرتے رہے اور باپ میدان میں آتے ہی چھاگیا ایوان بالا کے 104 میں سے 11 نشست قومی اسمبلی میں 5 صوبائی اسمبلی کے 65 میں سے 24 سیٹیں حاصل کرکے بلوچستان میں حکومت بنانے کیلئے اکثریت میں رہی وہ کل جو باپ کو ناجائز اس پر مسخرے کررہے تھے آج وہی انکے ساتھ حکومت کے مزے لوٹ رہے مختلف مراعات بٹور رہیں آج وہی باپ کو جائز و قوم دشمن مقتدر قوتوں کی جماعت کہہ رہے تھے کل ان سے سیاسی وابستگی کو بلوچ قوم کے ساتھ غداری سمجھتے تھے آج اپنے اقتدار کی خاطر دس بارہ دن اکھٹے باپ کے گھر میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے احتجاجی صورت میں گزارے انہیں دیکھ کر یہی اخذ ہوتا ہے آج بلوچستان میں جس سیاسی تقسیم در تقسیم کا ہے وہ قوم پرستی کیلئے نہیں بلکہ سیٹ پرستی پیٹ پرستی کیلئے ہے ہر کسی نے ڈیڑھ انچ کی مسجد اپنی پیٹ کی بقا کیلئے بنائی ہے انکی تقسیم در تقسیم کی وجہ سے بلوچستان آج بھی سیاسی تجربہ گاہ کا مرکز رہا ہے آج بھی بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ انہی پیٹ پرستوں کی وجہ سے ہورہی ہے انہی موقع پرستی کی وجہ سے ستر سال سے بلوچستان میں اصل قومی ایشو حل نہیں ہورہے ہیں اگر ان سے کوئی مسلہ حل ہوا ہے وہ ٹھیکیداری نظام ہے جس کا پرسنٹ ٹھیکیدار سے وزراءاور ان کو ملے ہیں جنہوں نے سیاسی انجینئرنگ کی ہے لیکن غریب عوام کے بنیادی سہولت و ضروریات انہیں نہیں ملے ہیں آج بھی لاپتہ افراد بازیاب ہوئے نہ ان کیلئے قانون سازی ہوئی کل اقتدار کے حصول کے خاطر ناراض بلوچ تھے آج اقتدار میں آتے ہی ناراض بلوچ تخریب کار بلوچ ہوئے، انہیں ایجوکیشن، صحت ملی نہ روزگار اگر انہیں ان قوم پرستوں سے ملا ہے تو وہ مہنگائی کی صورت میں ملا ہے کورونا وائرس آیا ،سیلاب آیا، غریب عوام کی جان بھی گئی، سر کی چھت بھی گئی ریاست کی ذمہ داری تھی انکی جان ومال کی حفاظت کرتے انہیں ملک اپنے خزانے سے مدد کرتے وہ ذمہ داری تو دور انہوں نے دیار غیر کے بھیک بھی ہڑپ لئے نہ کورونا وائرس کے معاوضے ملے نہ سیلاب کی بھیک غریبوں کو ملی، متاثرین کو ملنے والے آج بھی امدادی سامان وزراءکے انباروں میں سڑ رہے ہیں غریب آج بھی زندگی کی چیلنجوں سے نمٹ رہے ہیں اگر دیکھا جائے ملک کا اصل غدار یہی غریب لوگ ہیں جو ان سیاستدانوں کے چکنی چپڑی باتوں پر بھروسہ کرکے انکی خاطر اپنے رشتےداروں سے ناراض ہوکر اپنے لیڈروں کو دنیاوی خدا سمجھ کر انکے سامنے جے رام جے رام جی کرتے ہیں ملک کے اصل غدار یہی غریب ہیں جو انہیں جان کر بھی انجان ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں