8 مارچ خواتین کا عالمی دن

تحریر : کلثوم نیاز بلوچ
ورلڈ اکنامک فارم کی "گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ” کے مطابق 146 ممالک میں سے پاکستان 145 ویں نمبر پر ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر اب تک 73 کروڑ 60 لاکھ خواتین جنسی یا جسمانی زیادتی کا سامنا کر چکی ہیں۔ جو معاشرہ عورت کو حقوق دلوانے میں146 ملکوں میں سے 145 ویں نمبر پر ہو۔۔جہاں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں اور خواتین کی جبری گمشدگیاں تسلسل سے جاری ہو۔ جہاں عورت کو سیاسی جدوجہد سے دور رکھا جاتا ہو وہاں عورت کے حقوق اس معاشرے کی بنیادوں کو مکمل طور پر تبدیل کیے بغیر نہیں مل سکتے۔ہمارے معاشرے میں تاریخ بتاتی ہے کے خواتین کا کردار میدان ے جنگ سے لیکر سیاست و معیشت تک انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ دوسری طرف اگر بلوچستان میں تھوڑی بہت زراعت ہیں تو اس میں بھی خواتین کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔لیکن اسکے باوجود ہمارے معاشرے میں جہاں عورت کے ساتھ جنسی امتیاز بھرتا جاتا ہے مردوں کے اس اسیر معاشرے میں عورت کو کہیں بھی مرد کے برابر سمجھا نہیں جاتا۔ عورتیں جو ملکی آبادی کا نصف ہیں جنہیں بنیادی حقوق تک میسر نہیں۔ سیاسی سماجی سرگرمیوں سے الگ رکھا جائے کیا وہ معاشرہ اقوام عالم کی برابری میں اپنا کردار ادا کر سکے گا ؟
حالانکہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا کردار ایک صدی قبل تک انتہائی اہم تھا جسکی واضح مثال تاریخ میں بلوچ خواتین کا ہے جو بلوچ قوم کے لیے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہے۔چاکر ے اعظم کی بہن بی بی بانڑی جس نے بہادری کے ساتھ بلوچ لشکر کو جنگ جیتنے کے لیے ابھارا اور اس جنگ میں بلوچ لشکر فتح یاب ہوا اسی طرح 19 ویں صدی میں 1880ءمیں انگریزوں نے جب افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوے افغانستان پر حملہ کیا تو غیرت مند افغانوں نے میوند کے مقام پر جاکر فوج کو شکست دی اور اس جنگ میں افغان لڑکی ملالی کا کردار بڑا فیصلہ کن رہا اور افغان لڑکی نے جنگ کا پانسہ بدل دیا۔ایک زمانہ تھا جب امریکا میں طویل جدوجہد کے بعد صرف 8 سال قبل یعنی 1920ءمیں انیسویں ترمیم کے ذریعے خواتین کو ووٹ کا حق حاصل ہوا۔
بلوچ بانڑی سے 3 صدی کے بعد اور افغان ملالی کی تقریباً ہم عمر برطانوی خاتون ایم پی اے John sturt نے 1869ءمیں پہلی مرتبہ عورتوں کے ووٹ کیلئے آواز بلند کی اسی طرح 19 ستمبر 1893ءمیں نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک بنا جس نے خواتین کے ووٹ کے حق کو تسلیم کیا خواتین کے عالمی دن کا آغاز 28 فروری کو سوشلسٹ پارٹی امریکا نے کیا۔ 1910ءکو جرمن ڈیموکریٹک پارٹی کی clara zetkin نامی خاتون نے تجویز پیش کی کے عورتوں کے دن کو تمام ممالک میں منایا، پہلی مرتبہ یہ دن عزت و احترام کے ساتھ 19 مارچ 1911ءمیں منایا گیا۔ 1913ءمیں یہ دن 19 مارچ کے بجآ 8 مارچ کو انٹرنیشنل وومن ڈے منانے کا فیصلہ ہوا اور اب یہ پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
اگر ہمارے معاشرے میں انتہا پسند قوتیں عورتوں کے حقوق اور برابری کے سامنے مزاحمت نہ کرتے اور خواتین کو معاشرے میں اپنا سیاسی کردار ادا کرنے دیتے تو شاید آج ہمارا شمار تیسری اور چوتھی دنیا میں ہر گز نا ہوتا چند نا عاقبت اندیش، انتہا پسند سیٹ ذہنیت مٹھی بر عناصر اگر ہمارے روشن خیال معاشرے کو گمراہی کی طرف نہ دھکیلتے اور ہمارا معاشرہ بھی چند انتہاءپسندوں کے اثر کو قبول نہ کرتے ہوئے معاشرے کو جذبات اور قدامت پسندی کے بجائے عقل کے تابع کرتے تو آج شاید ہم کئی اور ہوتے۔ انسانی حقوق آزادی کی بنیادی ضرورت اور شرط ہے جن کو قانونی تحفظ حاصل ہے جو ہر انسان کا حق ہے۔ یہ ہماری زندگی کے انفرادی، سیاسی، شہری، روحانی، سماجی، معاشی اور ثقافتی پہلوﺅں کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ انسانی حقو ق کے احترام سے ہم اپنی بھرپور صلاحیت پر ترقی کرتے ہیں اور اندورنی اور قوموں کے درمیان امن کی بنیاد رکھتے ہیں۔
وہ عورتیں جو اپنے مقدر کے فیصلے خود کرسکتی ہیں وہ اپنی قوم کے مستقبل کو سنوارنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ برصغیر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ عجب تضاد اور مذاق ہے کہ برطانوی راج کا خنجر ایک طرف ہندوستان کی آزادی اور خود مختاری کے گلے پر چل رہا تھا۔ دوسری طرف وہی ہندوستانی عورت کے لیے مذہبی روایات، رسم و رواج اور عزت و احترام کے نام پر وجود میں آنے والی آہنی زنجیروں کی کڑیاں بھی کاٹ رہا تھا۔ برصغیر کی ہندو اور مسلمان عورتیں لارڈ ہینٹنگ اور لارڈ ڈلہوزی کے احسانات کو کبھی نہیں بھلا سکتیں۔ 1848ءسے 1856ءتک گورنر جنرل کے عہدے پر فائز رہنے والا یہ لارڈ ڈلہوزی تھا جس نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کوئی بھی بات عورتوں کی تعلیم سے زیادہ اہم اور بنیادی تبدیلی لانے کا سبب نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح ہندو عورتیں لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو نہیں بھول سکتیں جس نے انہیں مذہب کے نام پر زندہ جل کر ”ستی“ ہوجانے کے عذاب سے نجات دلائی۔ برصغیر کے ہندو اور مسلمان ہزار برس کی تاریخ سے ملکہ نور جہاں، گلبدن بیگم، میرا بائی یا حکمراں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی چند دوسری خواتین کے نام پیش کرتے ہیں جو صاحبِ علم اور صاحب کتاب تھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ متوسط اور نچلے طبقات کی مسلمان یا ہندو عورت پر تعلیم کے دروازے بند تھے۔ ہندو عورت کے حق کے لیے سب سے پہلے راجہ رام موہن رائے نے آواز بلند کی۔ وہ عورتوں کے ساتھ مساوی برتاو¿ اور ان کی تعلیم کے کٹر حامی تھے۔ ان کے بعد آنے والوں میں کیشب چندر سین ، رابندر ناتھ ٹیگور اور دیانند سرسوتی ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ صرف عقلیت پسندی پر مبنی سیکولر تعلیم ہی ہندوستانی عورت کو جہالت اور پسماندگی کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔
1838ءاور 1939ءمیں موہن رائے اور دیانند سرسوتی نے عورتوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ مہم چلائی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ جدید تعلیم کے دروازے ہندوستانی عورت پر سب سے پہلے بنگال میںکھلے عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک طرف متعدد مسلم اکابرین کی شدید مخالفت تھی تو دوسری طرف ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، سید کرامت علی، مولوی ممتاز علی، منشی سید احمد دہلوی، شیخ عبداللہ، راشد الخیری، عبدالحلیم شرر، نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم اور عظیم بیگ چغتائی اور دوسرے مسلمان دانشور تھے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں تعلیم نسواں کی حمایت کررہے تھے۔
ان میں سے کچھ نے لڑکیوں کے لیے اسکول قائم کیے، کچھ نے عورتوں کے لیے رسالے نکالے اور ان رسالوں کے ذریعے مسلمان عورتوں میں سماجی اور تعلیمی شعور اور بیداری پیدا کی۔ ہندوستانی عورت کے لیے زمانے اور حالات کو بدلنے میں زنانہ رسائل نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔اردو میں اس کام کی ابتدا بھی ایک عیسائی مشنری نے کی اور ”رفیق نسواں“ کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار جاری کیا لیکن بنگال میں یہ کام بہت پہلے شروع ہوچکا تھا اور 1850ءسے 1914ءکے دوران بنگالی خواتین 21سے زیادہ ادبی رسالے نکال رہی تھیں۔ مولوی سید احمد نے ہی ” رفیق نسواں “ کے فوراً بعد دلی سے عورتوں کے لیے ایک دس روزہ اخبار ” اخبار النساء“ جاری کیا لیکن لوگوں کی شدید مخالفت اور مالی مشکلات کی بناءپر یہ اخبار جلد ہی بند ہوگیا۔ 1880 کی دہائی کے آخری برسوں میں حیدرآباد دکن سے مولوی محب حسین نے ”معلم نسواں“ نکالا جو 14 برس تک کامیابی سے ہر مہینے نکلتا رہا اور اسی میں عبد الحلیم شرر کا ناول ” بدرالنساءکی مصیبت “ قسط وار شایع ہوا تھا۔
مولوی ممتاز علی نے 1898ءمیں لاہور سے ” تہذیب نسواں“ نکالا جسے بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ رسالہ تقسیم کے بعد تک نکلتا رہا اور خواتین کے اہم ترین رسالوں میں سے ایک ہے۔ اس نے پنجاب میں تعلیم نسواں کو عام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں لاہور سے ہی ” شریف بی بی“ اور ”خاتون“ نکلے لیکن یہ زیادہ دنوں زندہ نہیں رہ سکے۔
کچھ یہی حال بھوپال سے نکلنے والے رسالوں ”حجاب“ اور ”ظل السلطان“ کا بھی ہوا۔ لاہور کی ایک نامور شخصیت اور ”مخزن“ کے مدیر سر شیخ عبدالقادر کی تحریک پر علامہ راشد الخیری نے 1908ءمیں دلی سے ماہنامہ ”عصمت“ جاری کیا۔ ” ہذیب نسواں“ کی طرح ماہنامہ ”عصمت“ بھی ایک تحریک کی صورت اختیار کرگیا۔ علامہ راشد الخیری اور پاکستان بننے کے بعد ان کے بیٹے رازق الخیری نے ”عصمت“ کی اشاعت کو شدید مشکلات کے باوجود جاری رکھا۔
انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے یہ دین دار اور مذہبی اعتبار سے عالم و فاضل افراد ہیں جنھوں نے درد مندی سے عورتوں میں تعلیم عام کرنے کے لیے کام کیا، کفر کے فتوﺅں اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا کیا اور پھر بھی اپنے عزم میں اٹل رہے۔ میں ان کی زندگیوں پر نظر کرتی ہوں تو اکیسویں صدی کے وہ علماءمیری سمجھ میں نہیں آتے جو اپنے علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر قدغن لگاتے ہیں اور ان کے اسکولوں کو نذرآتش کراتے ہیں۔ یہ لوگ جو علماءہونے کے دعویدار ہیں کیا ان علماءسے اور متدین افراد سے زیادہ دین دار ہیں جنہوں نے انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلمان عورت کو جہالت اور پستی کی دلدل سے نکالا تھا ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔ آج ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی سے گزر رہے ہیں۔ دنیا بڑی تیز رفتار انداز سے ترقی کررہی ہے۔ ہر وہ ملک جو اپنے انسانی وسائل کو بہترین اور منظم طریقے سے کام میں لارہا ہے وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ آج بھی لوگ بچیوں کو تعلیم دلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور نہ ہی حکومت اس حوالے سے کوئی با معنی کردار ادا کررہی ہے۔ یہ جان لیا جائے کہ ہم جب تک عورتوں پر مشتمل اپنی آدھی آبادی کی معاشی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم معاشی پسماندگی کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں