سیل

تحریر: جمشید حسنی
یورپ، امریکا میں لوگ کر سمس کے موقع پر سیل پر خریداری کرتے ہیں ہماری طرح توانائی بچت کے لئے تین دن ہفتہ میں چھٹی نہیں ہوتی، کرسمس سال نو کے دوران دس دن چھٹی ہوتی ہے، کرسمس کے بعد بڑے اسٹور سیل لگاتے ہیں ایک تو نفع کے بعد بچی اشیاءبیچنا ہوتا ہے، دوئم واہاں فیشن بدلتے ہیں نئے فیشن کی اشیاءکو مارکیٹ میں فروخت کرنا ہوتا ہے، ہمارے یہاں پر غریبو ں کے لئے لنڈے کی سیل ہوتی ہے۔
آج کل ہمارے ہاں توشہ خانہ کی لوٹ مار و سیل کا چرچا ہے، پنجابی کہتے ہیں ”کڑے کڑے دی میں گل کراں، سارے شیرا دے بچے“۔ کون ہے جو محروم رہا ہے۔ نواز، زرداری، عمران ، جنرل مشرف، شوکت عزیز، جمالی، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی، چھ سو صفحات کی تفصیل، کیا کیا بتلائیں، عمران خان نے آٹھ کروڑ کی گھڑی ہتھیائی، 56 لاکھ کے ہیروں کا قلم، 38 لاکھ کی رولیکس گھڑی، 85 لاکھ کی انگوٹھی، صدر علوی کی بیگم نے 54 لاکھ کا بریس لیٹ لیا، زرداری نے پانچ کروڑ دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں لیں، عمران خان نے گیارہ کروڑ کے تحفے ہتھیائے، فواد نے 19 لاکھ کی گھڑی، خاقان عباسی نے ایک کروڑ روپوں سے 50 لاکھ کی دو گھڑیاں لیں، سب سے زیادہ تحفے شوکت عزیز نے اکٹھے کیے، جنرل مشرف بھی محروم نہ رہے۔ نواز شریف نے تین کروڑ کے تحائف کے لئے 11 لاکھ پچاس ہزار کی گھڑی چار لاکھ میں خریدی۔ 75 لاکھ کی گاڑی چار لاکھ میں خریدی، احسن اقبال نے پندرہ لاکھ کی گھڑی لی، نواز شریف نے تین کروڑ کی کاریں رکھیں، زرداری نے پندرہ لاکھ۔ شاباش ہے اس پر کہ لوٹ کھسوٹ کے باوجود قائم ہے۔
ترکی کے صدر کی بیگم نے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے اپنا ہار دیا۔ گیلانی کی بیگم نے رکھ لیا، واویلا ہوا تو واپس کردیا، اب بھی چند دن میڈیا پر چند روز واویلا ہوگا اور پھر خموشی ہوگی۔
پہلے زمانہ میں بادشاہ فتوحات اور لوٹ مار کرتے، محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے، اسلامی ریاست قائم نہ وئی، نادر شاہ ہندوستان میں، اب سکندر، چنگیز خان، امیر تیمور سب کا یہ ہی دھندہ تھا۔
آج جمہوریت عوامی نمائندگی کے نام پر اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تعلیم، صحت ہے، ہمارے وسائل محدود، وسائل بے شمار ہیں، وسائل پر اشرافیہ قابض ہے، قیادت موروثی جاگیردار ہے۔ روزگار کے مواقع محدود ہیں، اعلیٰ تعلیم مہنگی ہے، عوام پانچ سال میں ایک بار ووٹ استعمال کر کے گھر چلے جاتے ہیں، قومی پالیسیاں حکمرانوں کی مرضی سے بنتی، ذاتی مفاد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
شاعر نے کہا ۔
بنے ہیں اہل ہوس مد عی بھی منصف بی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں