چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے جیسے اصول کو سیاسی جماعتیں اپنے اندر بھی لاگو کریں، مولانا شیرانی

کوئٹہ (آن لائن) مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ سوموٹو نوٹس اور بینچز کی تشکیل کے اختیارات کو چیف جسٹس سے عدالت کے ادارے کو منتقل کرنے کیلئے قانون سازی کرنے والے لیڈرز سیاسی جماعتوں کو ادارہ جاتی مشاورت اور اجتماعی بصیرت کے بجائے ذاتی صوابدید اور شخصی فیصلوں کے بنیاد پر کنٹرول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ اپنے ایک حکم میں قرار دے چکی ہے کہ کابینہ سے منظوری لئے بغیر وزیراعظم کا کوئی بھی اقدام حکومتی اقدام نہیں بلکہ وزیراعظم کا ذاتی حکم تصور کیا جائے گا جبکہ اب سیاسی جماعتیں پارلیمان میں اس بنیاد پر چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کیلئے قانون سازی کر رہی ہیں کہ سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس کی ذات سے عبارت نہیں بلکہ تمام ججز مل کر سپریم کورٹ کے ادارے کو تشکیل دیتے ہیں سپریم کورٹ کا حکم اور پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی دونوں سے واضح ہوتا ہے کہ ادارے کی اہمیت اور مشاورت کی ضرورت پر عدالتی اور سیاسی دونوں پلیٹ فارمز پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن سیاسی جماعتیں اس اصول کو پارٹیوں کی سطح پر لاگو اور تسلیم کرنے کیلئے عملاً تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے اہل حل وعقد کے تصور کا فلسفہ یہ ہے کہ مشاورت کیلئے تشکیل دیا گیا فورم فہم و بصیرت اور تقوی و دیانت کے لحاظ سے ان صفات کے حامل افراد پر مشتمل ہوں جو کسی بھی معاملے کے حوالے سے درست رائے بنانے اور اسے پیش کرنے کے استعداد کیلئے ضروری ہے اور دوسرے مرحلے میں مسلمانوں کے امام کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جامعہ کے عمومی خیر و فلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل حل وعقد کے مشوروں کی روشنی میں اقدامات طے کرے لیکن موجودہ سیاسی جماعتوں میں اس بات کا اہتمام کیا جاتاہے کہ مشاورتی پلیٹ فارم میں باصلاحیت اور صاحب بصیرت ارکان شامل ہونے کا راستہ نہ پائے جبکہ لیڈروں کے فیصلے اور اقدامات اجتماعی ضرورت کے بجائے ذاتی مفادات اور مشاورت کے جگہ ڈکٹیٹر شپ پر مبنی ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے کردار میں موجود ان تضادات کی وجہ سے عوام کا سیاسی عمل اور کارکنوں کا اپنی جماعتوں اور قیادت سے اعتماد اٹھ گیا ہے اور قوم کی نظروں میں سیاست بے توقیر ہوگئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں