سائنسی طرز فکر !

تحریر: جان محمد ہزارہ

سائنسی طرز فکر کی اصطلاح یقینا آپ نے ہر جگہ استعمال ہوتے ہوئے دیکھی اور سنی ہوگی۔ اس پر گفتگو کرنے سے پہلے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سائنسی طرز فکر ہوتی کیا ہے؟۔ انسانی تہذیب کے ابتدائی دور میں ہی جب انسانوں کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ کائنات کیسے چل رہی ہے، ہمارے ارد گرد تبدیلیاں کیسے رونما ہورہی ہیں؟ تو جب کے طور پر اس وقت لوگوں کے پاس دو رائے تھی۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مادے کی ساخت ہی ایسی ہے کہ جس میں حرکت اور توانائی کا ایک خود کار نظام موجود ہے۔ ان لوگوں کے اس طریقہ فکر کو مادیت کا نام دیا گیا۔ وقت گزرتے گزرتے یہ ایک مکمل نظام طرز فکر بن گیا۔ یعنی جو مادے میں رونما ہونے والے ہر تبدیلی کو مادے کے اندر ہی تلاش کرتے اور اس طرز فکر کو انگریزی میں (Materialism) کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسی زمانے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مادہ ایک مردہ جان اور بے حرکت شے ہے اس کو حرکت دینے کیلئے بیرونی عامل کی ضرورت ہے تو اس کو تصورات (Idealism) کہتے ہیں۔ جو بعد میں یہ رفتہ رفتہ مضبوط ہوتا گیا اور ایک طرز فکر بن گیا۔
مادیت اور تصورات کے فلسفوں نے چونکہ ایک ہی سوال کے دو جواب کی صورت میں جنم لیا تھا اس لیے دنیا کو دیکھنے کے، زندگی کو سمجھنے کے، اپنے مسائل کا تجزیہ کرنے کے ، اپنے سامنے رونما ہونے والے واقعات کو سمجھنے کے دو زاویے، دو نظریے دو طریقے جنم لی۔ یہاں تک کہ ہماری گفتگو میں پیش کیے جانے والے خیالات بھی یا تو مادیت کے نظریے کا اظہار ہوتے ہیں یا تصورات کے۔ مثال کے طور پر آپ بیمار ہوتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس جاتے ہے۔ تو وہ بیماری کو آپ کے جسم کے اندر ہی تلاش کرتا ہے۔ ٹیسٹ لکھ دیتا ہے، جو ٹی بی کی تشخیص کرتا ہے وہ آپ کو ٹی بی بیماری لاحق ہونے کا کہتا ہے یعنی آپ کی بیمار ہونے کے پیچھے ٹی بی ہونے کی وجہ ہے۔ لیکن اس دوران کوئی آپ سے کہتا ہے کہ آپ کی بیماری کی وجہ لوگوں کی نظر بد ہے۔ تو یہاں دو طرز فکر نے جنم لی ہے۔
ایک مادیت جو ٹیسٹ کے زریعے سے آپ کے جسم کے اندر ہی بیماری کی تلاش کرتا ہے اور دوسری تصورات جو آپ کی بیماری کو ایک بیرونی عامل قرار دیتی ہے۔ مثال نمبر 2) آپ گھر سے موٹر سائیکل پر نکل کر کہیں جارہے ہیں کہ راستے میں موٹر سائیکل بند ہوجاتی ہے۔ آپ موٹر کی بند ہونے کی وجہ موٹر سائیکل کے اندر تلاش کرتے ہیں۔ پیٹرول اور دیگر جگہوں کو چیک کرتے ہیں۔ یہ مادیت کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں جب آپ شام کو گھر دیر سے پہنچتے ہے اور کوئی جب وجہ دریافت کرتا ہے اور آپ راستے میں موٹر سائیکل بند ہونے کی داستان سناتے ہیں تو وہ سامنے سے کہتا ہے کہ آپ ماں کے اجازت کے بغیر گئے تھے تو ماں کی نافرمانی کی وجہ سے موٹر سائیکل بند ہوئی ہے تو اس طرز فکر کو تصورات کہا جاتا ہے جو مادے میں ہر قسم تبدیلی کو بیرونی عامل سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی مادیت کے طرز فکر سے آگے جا کر سائنس نے جنم لی ہے۔ جبکہ خیالات کے طرز فکر سے دنیا میں تمام مذاہبِ نے جنم لی ہے۔ جو مادی میں پیدا ہونے والی ہر تبدیلی کو بیرونی عامل کے اثر انداز ہونے سے رونما قرار دیتے ہیں۔
یوں کہہ دے تو مادیت کی کوکھ سے سائنس نے جنم لی ہے جبکہ خیالات کی کوکھ سے مذہب نے جنم لیا ہے۔ لہذا جب ہم کائنات اور معاشرے میں ہونے والی ہر تبدیلی اور واقعات کو مادیت کے طرز فکر سے دیکھتے ہیں تو اسے سائنسی طریقہ کار کہا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں انسانوں نے جتنی بھی ایجادات اور دریافتیں کی وہ تمام کے تمام سائنسی سوچ، طریقہ کار کے مرہون منت سے کی ہیں۔ لہذا جب تک ہم اپنی زندگی کے تمام پہلوں اور بالخصوص سماج مسائل و واقعات کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کی طرز فکر، طریقہ کار کو نہیں اپنائے گئے تب تک ہم ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتے ہیں۔ سماج کے مسائل کو صرف سائنس طرز فکر کی مدد سے ہی بہتر انداز میں حل کیا جا سکتا ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں