جامعہ بلوچستان: مالی بحران کا شکار

تحریر: محمد ایوب جاموٹ
بی ایس او یونٹ سیکرٹری یونیورسٹی آف بلوچستان‏جامعہ بلوچستان ہماری مادرِ علمی ہے جس نے ہر دور میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسر، دانش ور، ادیب، شاعر اور لیڈرز پیدا کیے ہیں۔ اس ادارے سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں۔ اس ادارے نے کھبی اپنی تاریخ مسخ نہیں۔
یہ وه درس گاہ ہے جس میں طلبا علم اور شعور حاصل کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایک عرصے سے سازش کے تحت اس ادارے کو بند کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استمال کیے جا رہے ہیں۔ کبھی جاوید اقبال جیسے گندے کردار کو مسلط کیا جاتا ہے، جن کی وجہ سے اس پاک ادارے کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کی جاتی ہے، جب اس میں ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہےتو شفیق الرحمٰن جیسے نالائق کو اس ادارے پر مسلط کیا گیا۔


اگر ادارے کی حالت پر غور کیا جائے تو محسوس ہو گا یہ تعلیمی ادارہ کم کاروباری مرکز زیاده ہے جہاں طلبا پر فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔ فیسوں کی مد میں یونیورسٹی انتظامیہ طلبا کو ریلیف دینے کی بجائے ہر سال سو فیصد فیسوں میں اضافہ کرتی ہے۔ اس سال تو انتظامیہ نے ملک کے حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں مالی و معاشی بحران، بے روزگاری، بلوچستان میں حالیہ بارشوں، سیلاب جس سے صوبہ کا بیشتر حصہ متاثر ہوا، اس کے باوجود فیسوں میں دو سو فیصد اضافہ کیا۔


موجودہ وائس چانسلر کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ، ویسے بھی وه سوچی سمجھی سازش کے تحت اس ادارے پر مسلط کیا گیا ہے لیکن اس صوبے کے باشندے جن کا تعلق اس غریب صوبے سے ہے، انہوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
جامعہ بلوچستان میں موجودہ بحران کی ایک اور بڑی وجہ غیرتجربہ کار اور کریپشن میں ملوث انتظامیہ ہے جس کی وجہ سے ادارہ میں اب مالی بحران جنم لے چکا ہے۔


کیا پروفیسرز کا حق نہیں بنتا اپنے ڈوبتے ہوئے ادارے کو بچا لیں؟ یونیورسٹی مالی بحران سے دو چار ہے۔ پروفیسرز اور ملازمین نے ادارے میں قلم چھوڑ ہڑتال کر رکھی ہے اور ایک ماہ سے زیاده عرصہ ہو چکا ہے کہ ادارہ مكمل طور پر بند ہے۔ اگر اس ادارے کو مزید بند رکھا گیا تو اس صوبے میں مزید تعلیمی بحران جنم لے سکتا ہے۔ پروفیسرز اور ملازمین کی تنخواہوں سمیت ادارہ دیگر مالی بحران کا سامنا رہا ہے جس پر مختلف طلبا تنظیموں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروائے ہیں۔


کیا کبھی ان طلبا کے مسائل پر کسی پروفیسر نے بات کی؟ جی نہیں۔ کیوں کہ اس ادارے میں وائس چانسلر سیمت وه لوگ بھی مسلط ہیں جن کا کام بچوں کو پڑھانا نہیں بلکہ چاپلوسی ، حسد، سازشیں، تنگ نظری تعصب کرنا ہے۔ جو اس متعصب وائس چانسلر شفیق الرحمٰن کے خلاف ہیں، کیوں کہ اب ان کے مفادات ایک دوسرے کے حق میں نہیں۔ آل ٹیچرز ایسوسی ایشن نے ہمیشہ اپنی روایتی سیاست کی ہے۔ شفیق الرحمٰن سے ہمیں کوئی ہم دردی نہیں۔ جب سے وه اس ادارے کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں تب سے طلبا کے خلاف مختلف ہتھکنڈے استمال کیے ہیں لیکن اگر شفیق الرحمن کو عہدے سے برطرف کیا جائے اور ان کی لابی کا وائس چانسلر منتخب ہو جائے تو شاید یہ ٹیچرز کل ہی احتجاج ختم کر دیں۔


یونیورسٹی میں مالی بحران کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ اس کی ذمہ داری وائس چانسلر سیمت ہر اس فرد پر ہے جو ادارے میں طاقت ور تھا لیکن اپنے مفادات کی خاطر اس کریپشن پر چپ رہا۔ آج سب سے زیادہ شور بھی وه ہی مچا رہا ہے کہ ملازمین کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں، وائس چانسلر کرپٹ اور نااہل ہے۔ ہاں ہم مانتے ہیں کہ ہم پر مسلط کردہ وائس چانسلر سميت پرو وائس چانسلر بھی اس کی ٹیم کا حصہ ہے، وه بھی انتہائی کرپٹ ترین انسان ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ پروفیسرز کی ہم دردیاں تشویش ناک ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ادارے میں بحران کی وجہ صرف وائس چانسلر نہیں بلکہ ہر وه شخص ملوث ہے، ہر وه پروفیسر ملوث ہے جو طلبا کو پڑھانے کی بجائے کینٹینز اور ایڈمسٹریشن میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔


اب ادارے کو مالی بحران سے نکلنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ کیا وه عمل اچھا ہے جس سے طلبا پہ لیے تعلیم کے دروازے مزید بند ہوں؟ جب تک وائس چانسلر اپنے عہدے سے دستبردار نہیں ہوتا یونیورسٹی بند رہے گی۔
ہمیں اس تنگ نظری اور تعصب سے نکل کر اس ادارے کی بھلائی کے لیے سوچنا ہو گا۔ ادارے میں زیرتعلیم طلبا اس قوم کا مستقبل ہیں جن سے اس صوبے کی امیدیں وابستہ ہیں۔ ہمیں مل کر ایک دوسرے کے لیے راستہ بنانا ہو گا تاکہ جلد از جلد یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالا جا سکے، اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں